لاہور ( وقائع نگار خصوصی +نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اصغر خان کیس پر کابینہ کا اجلاس نہ بلانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکومت کو کوئی فکر نہیں جبکہ سپریم کورٹ نے بغیر استحقاق رکھی گئی گاڑیاں وزراءاور محکموں سے فوری واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عوام ٹیکس کا پیسہ وزیروں کی عیاشیوں کے لیے نہیں دیتے، جسے بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے اپنی جیب سے خرید لے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اصغر خان فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بشیر میمن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اس حوالے سے انکوائری جاری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کابینہ نے اصغر خان کیس سے متعلق اب تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا؟۔ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ کابینہ کا اجلاس بلانے کے لیے مہلت دی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے اب تک اصغر خان کیس سے متعلق کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا، یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکومت کو کوئی فکر ہی نہیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بغیر استحقاق رکھی جانے والی گاڑیوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت بھی کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر عباس نے وفاقی کابینہ اور محکموں کے پاس موجود گاڑیوں کی تفصیلات پیش کیں۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 105 گاڑیاں وفاقی حکومت اور کابینہ کے زیر استعمال ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی بھی افسر یا وزیر 1800 سی سی سے اوپر گاڑی رکھنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس ایک لینڈ کروزر، تین ڈبل کیبن گاڑیاں ہیں۔ عابد شیر، کامران مائیکل کے پاس مرسیڈیز گاڑیاں ہیں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے پاس بھی بلٹ پروف گاڑی ہے۔ خورشید شاہ کے پاس بھی بلٹ پروف گاڑی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے کس اختیار کے تحت گاڑیاں خریدنے کی ہدایت کی؟ عوام اپنے ٹیکس کا پیسہ وزراءکی عیاشی کے لیے نہیں دیتے۔ سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے بغیر استحقاق رکھی گئی ساری گاڑیاں آج (جمعرات) رات 12 بجے تک وزراءاور محکموں سے واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ خلاف قانون گاڑیاں خریدنے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پیسے وصول کیے جائیں گے۔ عدالت نے حکم دیا کہ جانے والے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف سے اضافی 2 گاڑیاں واپس لی جائیں جبکہ کابینہ تحلیل ہوتے ہی صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ اور دیگر سے بھی بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات میں بلٹ پروف گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر کسی کو بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے تو اپنی جیب سے خرید لے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بغیر استحقاق گاڑیاں رکھنے کا معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کو لگژری گاڑی کے استعمال پر وضاحت کے لیے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ استحقاق نہ رکھنے والے دیگر وزراءاور افسران کو بھی طلب کیا جائے گا اور قانون کے برعکس گاڑیاں خریدنے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پیسے وصول کیے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں لاہور اور کراچی میں زیرالتوا مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ دوران سماعت نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں زیرسماعت مقدمات میں 72گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے۔ لاہورکے مقدمات میں 3 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ وکیل نیب نے کہا کہ ملزم ایازخان ریمانڈ پر زیرحراست ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کارروائی گزشتہ آرڈر سے پہلے کی ہے۔ عدالتی حکم کے بعد کیا کیا؟ چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے نیب کیس میں ملزمان کےساتھ رعایت کررہا ہے، کیس اہم نوعیت کا ہے۔ نیب کو رعایت برتنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ عدالت نے لاہور اورکراچی میں زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو 10 روز میں چاروں ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا اور ملزم محسن وڑائچ کو بھی گرفتارکرکے عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جس نے کرپشن کی ہے اسے سزا ملنی چاہئے۔ دریں اثناءسپریم کورٹ نے میڈیا کمشن کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کردی گئی ہے۔ کابینہ نے پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کی منطوری بھی دے ہی ہے۔ ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا الیکشن کمشن نے چیئرمیمن پیمرا کی تعیناتی پر نوٹس جاری کیا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ الیکشن کمشن کا اقدام چیف جسٹس کے نوٹس میں لائیں، عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کی جانب سے بھرتیوں پر پابندی کیس کی سماعت کرتے ہوئے چاروں صوبوں میں ایک ماہ کے دوران کیے گئے افسران کے تبادلوں کو عدالتی فیصلے سے مشروط کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کے لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جارہا ہے جو بدنیتی پر مبنی ہے۔ حکومت کو جاتے جاتے یہ تبادلے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام نگران حکومت یا الیکشن کمشن بھی کر سکتا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے تمام تبادلوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے تمام صوبائی حکومتوں کو پچھلے ایک ماہ میں گریڈ 17اور اس سے اوپر کے افسران کے تقرر و تبادلوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کو عدالتی فیصلے سے مشروط کر دیا۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ان تبادلوں کا جائزہ لے کر فیصلہ دیں گے۔ ڈی آئی جی عبدالرب نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد 246 اعلی شخصیات سے سکیورٹی واپس لی گئی تاہم عدالتی حکم پر قائم کمیٹی کی سفارش پر 114 شخصیات کو سکیورٹی واپس کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حقائق کے مطابق مصدقہ رپورٹ کی فراہمی کا موقع دیتے ہوئے چوبیس گھنٹوں میں دوبارہ رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اگر رپورٹ میں حقائق چھپانا ظاہر ہو گیا تو آئی جی پنجاب اور ڈی آئی جی عبدالرب ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کوکتنی سکیورٹی دی گئی ہے۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ 90 کانسٹیبل حمزہ شہباز کی سکیورٹی پر مامور تھے جنہیں واپس بلالیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا عدالت کو حقائق سے آگاہ کرے۔ عدالت خود بھی پتہ کرائے گی۔ عدالت نے مزید سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ حمزہ کی رہائش پر آج بھی کپڑے ”ٹنگے“ ہوتے ہیں۔ لوگوں کی پرائیویسی ختم ہو گئی ہے۔
چیف جسٹس
اصغر خان کیس : کابینہ اجلاس نہ بلانے پر چیف جسٹس برہم : ایک ماہ میں ہونیوالے تقرر تبادلے عدالتی فیصلے سے مشروط
Jun 01, 2018