نواز شریف نے 28 مئی کو الحمرا آرٹس کونسل میں یوم تکبیر منانے کا اعلان کیا تھا۔ امیدتھی کہ سارا انتظام عمران نذیر کرے گا۔ مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس دن صرف مریم نواز نے بڑی بھرپور تقریر کی اور حمزہ شہباز کے لئے پیارا بھائی کا لفظ کہا جو مجھے اچھا لگا۔ میرے خیال میں 28 مئی ایک قومی دن ہونا چاہئے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس دن کے لئے کوئی پروگرام بناتی۔ یہ صرف مسلم لیگ ن کا اور نواز شریف کا دن بن گیا ہے۔ مسلم لیگی ہی اس کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے کارکن اس دن کے لئے کام کرتے ہیں۔
مگر اس دن کے آس پاس ایک بڑا جملہ مریم اورنگزیب نے کہا۔ اس نے نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی۔ نواز شریف نے اس کو ایک ناقابل فراموش جملہ کہا۔ مریم اورنگزیب نے یہ جملہ ہم سب کے ساتھ شیئر کیا۔ مریم آجکل بہت سرگرم ہے۔ خود بھی بہت تھوڑے عرصے میں ایک قابل ذکر لیڈر بن گئی ہے۔ اتنے کم عرصے میں سامنے آنا اور نمایاں ہونا کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ خواتین میں تو یہ بات بہت ہی کم ہے۔ وہ دلکش شخصیت کی مالک سیاستدان ہے۔ اس نے اپنے آپ کو بڑی جلدی منوایا ہے۔ مگر اسے وزیراعظم پاکستان کے لئے بہت کمتر الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ آخر وہ پاکستان کے انتظامی سربراہ ہیں۔ عمران نے کچھ نہیں کیا تو پہلوں نے کیا کیا ہے۔ یہاں حکمران کچھ کرنے کے لئے نہیں آتے۔ وہ صرف حکومت کرنے آتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی دو تین ادوار میں موٹر وے بنوائی۔ شہباز شریف نے لاہور میں کچھ کام کیا۔ مریم اورنگزیب بتائیں کہ عمران نالائق اعظم ہے تو دوسرے کتنے لائق اعظم ہیں۔ نواز شریف گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے ساتھے تھے۔ کلاس فیلو نہیں تھے۔ کالج فیلو تھے۔ میں یاد رکھتا ہوں کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے۔ جب میں بھی وہاں تھا مجھے گورنمنٹ کالج میں رول آف آنر ملا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے بہت بڑے میدان (اوول) میں نواز شریف کرکٹ کھیلتے تھے اور کنٹین میں کھانے کھاتے تھے۔ عمران خان کو نواز شریف کی طرح لوگوں نے الیکٹ کیا ہے تو پھر وہ سلیکٹڈ وزیراعظم کیوں ہو گئے؟ جو خوبیاں نواز شریف میں ہیں۔ ہم دل و جان سے مانتے ہیں مگر مریم اورنگزیب عمران کے لئے زبان ٹھیک رکھیں۔ وہ بھی پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ میں ان کے گروپ میں نہیں ہوں مگر انہیں وزیراعظم مانتا ہوں۔ ہم مریم اورنگزیب کے لئے اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ ان کی ایک قدر میرے دل میں ہے۔ وہ مسلم لیگی لیڈر ہیں۔ وہ اچھے مسلم لیگی لیڈر کی طرح طرزعمل اختیار کریں۔
مجھے تو نواز شریف کا وہ اہم جملہ یاد ہے جو انہوںنے مریم اورنگزیب سے کہا ۔ ااس کے لئے میں دونوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا شکستہ ہوں مگر ناقابل شکست ہوں۔ میرا دوست عدیل مجھے ’’مسلم ہینڈ‘‘ کے سید لخت حسنین کے پاس وزیر آباد میں لے گیا۔ مگر میں نے سید صاحب کی زبان سے عدیل اور فرح ہاشمی کی جیل کے لئے بڑی اور انوکھی فلاحی تنظیم ’’رہائی‘‘ کا نام نہیں سنا۔ پھر صحافیوں کے ساتھ لخت حسنین کے روابط بڑھے اور بڑھتے ہی چلے گئے۔ لخت حسنین بڑے مزیدار آدمی ہیں۔ بڑی خوبصورت سفید داڑھی کے پیچھے ان کا نورانی چہرہ ایک رومانی ماحول بنا دیتا ہے۔
وزیر آباد کا نام کس نے رکھا ہے۔ شاید اسی لئے یہ شہر مشہور ہوا ہے ۔ مگر مجھے تو اب تک اس حوالے سے اس شہر کا کوئی وزیر شذیر نہیں ملا۔ لخت حسنین نے ایک آدھ گھنٹے کی ملاقات میں پچاس ساٹھ بار برادرم سہیل وڑائچ کا نام لیا۔ ایک دن جیؤ کے ساتھ مجھے ایک سال جیو کے ساتھ محسوس ہوا۔ سہیل اچھا پروگرام کرتا ہے۔ یاد کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ یہ نام انہیں بھول نہ جائے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ وہ پیلاک میں ڈاکٹر صغرا صدف کے پروگرام میں شریک ہوئے۔ صغرا صدف نے پیلاک کو ایک عالمی ادارہ بنا دیا ہے۔ یہاں صدر پریس کلب ارشدانصاری اور ان کے ساتھیوں کے لئے ایک ڈنر صغرا نے کیا ہوا تھا۔ ادیبوں میں سے صرف مجھے بلایا گیا۔ مگر میں نے یہاں اپنے آپ کو صحافی سمجھا۔ میں نے ارشد انصاری کو پیار سے پریس کلب کا مستقل صدر مگر منتخب صدر کہا۔ وہ مسلسل نویں بار صدر پریس کلب منتخب ہوا۔ کسی مقبول آدمی کو دوسری بار منتخب ہونا بھی مشکل ہوتا ہے یہ تو مقبول ہونے سے بھی آگے کی بات ہے۔ مقبول سے آگے تو محبوب ہی ہوتا ہے۔
مسلم ہینڈ والے سید لخت حسنین بھی یہاں تھے تو ان کے سامنے ایک بہت بڑی بات ارشد انصاری نے کہہ دی۔ مسلم ہینڈ اور سیف ہینڈ۔ یہ اصطلاح سید صاحب کی بہت پسند آئی۔ جب تک مسلم ہینڈ کی صورتحال لخت حسنین کے پاس ہے تو سمجھیں کہ سیف ہینڈ میں ہے۔ آگے خدا مالک ہے۔
دنیا بھر میں اور عالم اسلام میں بہت جگہوں پر مسلم ہینڈ کی شاخیں ہیں۔ وزیر آباد میں تو یوں لگا جیسے ویرانے میں بہار آئی ہو۔ جنگل میں منگل بلکہ بدھ بلکہ جمعرات جمعہ۔
ہینڈ کا لفظ مسلم کے سا تھ بہت بامعنی ہو گیا ہے۔ اردو میں یہ لفظ لائیں تو ایک نئی دنیا سامنے آتی ہے۔ ہاتھ ملانا۔ ہاتھ بٹانا۔ ہاتھ بڑھانا۔ اور ہاتھ دینا کہ یہ ساتھ دینے سے بھی آگے کی بات ہے۔ ہاتھ مضبوط کرنا تو بہت ہمہ گیر ہے۔ اب آپ مسلم ہینڈ پر غور کریں اور مسلمانوں کے لئے محبت اور حمایت پر دھیان دیں۔ شکریہ لخت حسنین
ایک بہت خوبصورت کتاب سیرت النبیؐ کے حوالے سے ہے۔ کتاب کا نام ’’رہبر کائنات‘‘ ہے اور اس کی مصنفہ سیدہ نورالصباح ہاشمی ہیں۔ کتاب عقیدت اور محبت سے بھری ہوئی ہے۔ بے شمار کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی۔ میرے خیال میں کسی شخصیت پر اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ اس موضوع پر قلم اٹھانا ایک بڑی قلبی اور قلمی ہمت کی بات ہے۔ ’’رہبر کائنات‘‘ کی مصنفہ سیدہ نور الصباح ہاشمی ایک بہادر اور قابل خاتون ہے۔ وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔