جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں

Jun 01, 2020

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام طلبہ بغیر امتحان پروموٹ ہو گئے ، نویں اور گیارہویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر میٹرک اور انٹر پاس ہو جائیں گے۔ نویں اور گیارہویں کے امتحان کسی صورت نہیں ہوں گے۔ ایسے طلباء آئندہ سال صرف دسویں اور بارہویں کے ایگزیم دینگے۔ اسی طرح اعتکاف شہر آباد نہیں کئے گئے ۔ مساجد میں سنت نبویؐ کی ادائیگی کے لئے صرف چند اصحاب کو بیٹھنے کی اجازت ملی۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی شرح ترقی اسی سال منفی 1.5 فیصد ہو جائے گی۔ کرونا نے ترقی کے خواب چکنا چور کر دئیے۔ تخمینے اُلٹا کر رکھ دئیے، عالمی معیشت 3.2 فیصد سکڑ جائے گی۔ پاکستان کو دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح بڑے مالی خسارے اور مزید سرکاری قرضوں کا سامنا ہو گا۔ عمران خان نے بجا کہا کہ بھوک کرونا سے زیادہ خطرناک ہے لیکن دکاندار اور خریدار دونوں غیر سنجیدہ ، احتیاط نہ حفاظتی اقدامات عوام اور دکاندار تو ایس او پیز کا مطلب تک نہیں جانتے ، دکانداروں کو اس کا مطلب دکانیں سیل ہونے پر سمجھ آتا ہے۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں آئندہ مہینوں میں کمی آنے کی توقع ہے۔ کوڈ 19 سے ذہنی صحت کے بحران کا بھی خطرہ ہے۔ عوام یہ ڈائیلاگ ہر حکمران کی زبانی سنتے آ رہے ہیں مثلاً سمگلنگ اور مہنگائی کے خلاف کارروائی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا ۔ بدعنوانی زہر ہے اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا۔ کریک ڈاون کا حکم دے دیا گیا ہے۔ دھیلے کی کرپشن کی ہو تو میرا نام ش ش نہیں وغیرہ سمجھوتا کئے بغیر اقتدار کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ کسی انسان کے آہنی ہاتھ کبھی اور کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ لاک ڈائون تو بچے بچے نے دیکھ لیا ۔ کریک ڈائون دیکھنا باقی ہے۔ کیا دھیلے کی کرپشن پر جے آئی ٹی رپورٹیں جسمانی ریمانڈ اور پیشیوں پر پیشیاں بھگتی جاتی ہیں۔ کرپشن سے پاک لوگ تو آنکھ میں آنکھ ڈال کر للکارتے ہیں۔ لندن جانے کے لئے نہیں تڑپتے۔ اپنی تشکیل کے فوراً بعدہی دسواں قومی مالیاتی کمیشن متنازع ہو گیا۔ اس لئے کہ ساتویں ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں میں قابل تقسیم محصولات کی طے کردہ شرح یکسر بدل جائے گی۔ مالیاتی حصہ کی شرح صوبوں کے لئے 57.5 فیصد اور وفاق کے لئے 42.5 فیصد ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل ، نیشنل اکنامک کونسل ، اسلامی نظریاتی کونسل غرضیکہ کونسلیں اور کمیشن ہی کمیشن ہیں پھر وزارتیں اور ان سے منسلک ڈویژن کس لئے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی ریاستی ڈھانچوں میں بڑی کمی واقع ہو جانی تھی جو نہیں ہوئی۔ ٹیکس کی قومی آمدنی سے شرح 9 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جانی تھی ، وہ بھی جوں کی توں رہی۔ گزشتہ دو ماہ میں شرح سود میں 25.5 فیصد کمی کی جا چکی ہے۔ ٹیکس وصولی 5 فیصد کم رہی۔ مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد سکڑنے کا خطرہ ہے۔ درآمدات و برآمدات کا توازن بری طرح بگڑا ہوا ہے۔ وفاق کے پاس بہت کم وسائل ہیں۔ قابل تقسیم پول میں دفاعی اخراجات کو الگ کرنے کی تجویز ہے۔ سیاسی قوتوں پر احتساب کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کمیشن اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا۔ درآمدی خام مال پر کسٹم ریگولیٹری ڈیوٹیاں کم کرنیکی تجویز ہے، 4800 ارب ٹیکس ہدف کے لئے IMF کو راضی کرنے کی کوششیں ہیں۔ کسٹم ایکٹ سے 200 اشیاء خارج اور شناختی کارڈ کی شرط ایک لاکھ کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ تیل سستا ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹرز کرایہ کم کرنے اور تاجر حکومتی پابندیاں ماننے کو تیارنہیں۔ چاند رات تک 24 گھنٹے کاروبار کھلے رکھنے کا اعلان، ہر تاجر مینو فیکچرر من مانی پر اُترا ہوا ہے۔ مافیا مصنوعی بحران پیدا کرنے کا ماہر ہے۔ عید سے پہلے ڈیزل بحران پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے مشکل پیدا کرنا ہے۔ نہر کے اطراف چنگ چی ہی غریبوں کا سہارا ہے۔ ایسی پابندیوں سے بھلا کیا حاصل ہوتا ہے۔ لال پل منہدم کرنے سے کسی کو کیا فائدہ ہوا لوہے کے بلندو بالا پلوں پر پیسہ برباد کیا۔ موٹر سائیکل سواروں کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ یوٹرن دور دور بنائے گئے۔
محکموں اور ذیلی محکموں کی بھرمار جو کوڑے کچرے کے ڈھیر نہ اٹھوا سکیں، ایل ڈی اے ، واسا، ٹیپا ، پی ایچ اے، رنگ روڈ اتھارٹی، ویسٹ مینجمنٹ کمیٹی، پارکنگ کمیٹی اور درجنوں کمیٹیاں سب یکجا کردی جائیں فنڈز کی قلت سے لاہور میں کئی ترقیاتی منصوبے بند پڑے ہیں آئندہ مالی سال 20-21 کے ترقیاتی پروگرام کیلئے رقم موجود نہیں۔ دور حاضر میں سرکای ملازمین گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔ فلور ملز کی ہڑتال پر علیم خان سے جواب طلبی کی جائے، تنگ ڈاکٹرز سڑکوں پر آئیں تویاسمین راشد کو شوکاز جاری کیا جائے۔ حفیظ شیخ نے آنے والے بجٹ کو کرونا بجٹ کا نام دے دیا ہے۔ منی بجٹ تو سنتے تھے اب بجٹ کی تیسری قسم سامنے آرہی ہے اس سال ریونیو کا ہدف 4800 ارب سے کم کرکے 3900 ارب کردیا ہے۔
گندم سمگلنگ مافیا سب سے طاقتور ہے سمگلنگ میں گھوسٹ ملیں ملوث ہیں اس سال ہدف 82 لاکھ ٹن مقرر ہے۔ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری سے پہلے ہی آٹے کا بحران شروع ہوگیا ہے۔ پانچ ماہ پہلے بھی گندم و آٹے کا بحران پیدا کیا گیا تھا مافیا زکے آگے وزراء کیوں بے بس ہیں انصاف کی راہ میں عدالتوں میں تاریخوں پر تاریخیں ہیں، عدالتی نظام کے سقم بڑے سے بڑا چیف دور نہ کرسکا کون سا آئی جی گزرا جس کی اصلاحات یادگار ہیں ۔کون سے چیف سیکرٹری کو لوگ یاد کرتے ہیں نیب میں بڑے بڑے کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکے، ہسپتالوں میں دیگر سنگین امراض کے مریضوں کو کرونا کے کھاتے میں ڈال کر ڈبوں میں بند کرکے سپردخاک کیا جارہا ہے، ڈاکٹروں کی بے رحمی لاپروائی عدم دلچسپی کے چرچے عام ہیں، سانحہ ماڈل ٹائون کو 6 سال گزرنے کو ہیں۔ طاہر القادری بول بول کر تھکنے کے بعد کینیڈا میں سیاست پر دو حرف بھیج آرام فرما ہوگئے کہاں انقلاب کیلئے للکارتے اور کفن پوش تحریک کی دھمکیاں دیتے تھے خالص دینی رہتے سیاست کی آمیزش سے پاک رہتے تو واقعی ’’شیخ الاسلام‘‘ ہوتے۔

مزیدخبریں