آٹے کی بڑھتی قیمت ذمہ دار کون ہے؟؟؟؟

ہم نے فیصلہ کیا کہ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر آٹا خریدا جائے گا چاہے کچھ ہو جائے کتنا ہی سفر کیوں نہ کرنا پڑے، کتنا ہی وقت کیوں نہ کگ جائے، خریداری حکومتی نرخوں کے مطابق ہی ہو گی ورنہ نہیں ہو گی۔ گھر سے نکلے ہیں ایک دکان دوسری دکان، تیسری دکان، چوتھی دکان، ایک سٹور، دوسرا سٹور، تیسرا سٹور،چوتھا سٹور، ایک علاقہ دوسرا علاقہ تیسرا علاقہ، شہر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا جانے کی کوشش کی لیکن کہیں بھی حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر آٹا دستیاب نہیں تھا۔ حکومت نے بیس کلو آٹے کے تھیلے کا ریٹ نو سو پچیس روپے مقرر کر رکھا ہے لیکن اس ریٹ پر آٹا شہر میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ آٹے کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں حیران کن ہیں اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ چینی کی قیمتیں بڑھتی رہیں اور ایک سال میں چینی ساتھ روپے سے نوے پچانوے روپے فی کلو تک پہنچ گئی پھر ایک تحقیقاتی کمشن قائم کرنا پڑا اس تحقیقاتی کمشن کی رپورٹ آج سامنے آ چکی ہے لیکن چینی کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یوں اس کمشن کی تحقیقات کا اس سال تو عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکا اور اگر چینی کی پرانی قیمت پر فروخت شروع نہیں ہو جاتی تو سارا بوجھ عام آدمی پر ہی پڑا ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن ہوتا ہے اور یہ رپورٹ منطقی انجام تک پہنچتی ہے یا نہیں اسکا فیصلہ تو بعد میں ہو گا یہ ایک طویل سفر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ایک صورت میں عوام کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ چینی پرانی قیمت پر باآسانی دستیاب ہو۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شہر میں آٹا حکومتی نرخوں پر آٹا ڈھونڈنے میں ناکامی کے بعد ہم نے ایک فلور مل سے رابطہ کیا اور ان سے آٹے کی قیمت کا پوچھا تو جواب ملا کہ نو سو بیس روپے ایکس مل ریٹ ہے۔ یعنی آٹے کو فلور مل سے اٹھا کر جہاں پہنچانا ہے وہاں تک گاڑی کا خرچہ بھی ہمیں ہی برداشت کرنا ہو گا۔ جب فلور مل سے ہی آٹا حکومت کے مقرر کردہ نرخوں سے زیادہ پیسوں میں نکلے گا تو بازار میں نو سو پچیس روپے پر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اب اس تجربے کے بعد حکومت کو ضرور اس اہم مسئلے پر توجہ دینا ہو گی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت نو سو پچیس روپے کیسے مقرر کر دی گئی ہے جبکہ اس قیمت میں تو بیس کلو کا تھیلا فلور مل سے بھی نہیں مل رہا۔
اب آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے بھی عام آدمی براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ حکومت اپنے مقرر کردہ نرخوں پر عملدرآمد میں ناکام ہے۔ حد یہ ہے کہ بیس کلو کے تھیلے کی قیمت چودہ سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اتنی تیزی سے قیمتوں میں اضافہ یہ بتا رہا ہے کہ متعلقہ وزارت مکمل طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہے۔ وزیر صنعت میاں اسلم اقبال کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ انہیں ووٹرز نے اسمبلی میں اس لیے نہیں بھجوایا کہ اسمبلی میں بیٹھ کر اور اہم وزارت سنبھال کر ذاتی تعلقات نبھانے کے بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کریں۔ ٹیلی ویڑن پر تقاریر کرنے سے مہنگائی کم نہیں ہوتی نہ ہی آٹے کی قیمتیں قابو میں آتی ہیں اس کے لیے ٹھنڈے کمروں سے نکل کر گرم سڑکوں پر پھرنا پڑتا ہے۔ اہم وزراء خود کو تقریروں تک محدود کر لیں اور چند افراد کے ساتھ دوستیاں نبھانے لگ جائیں تو عوام کا حال وہی ہوتا ہے جو ان دنوں ناجائز منافع خور اور مل مالکان کر رہے ہیں۔ سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو بھی احساس کرنا ہو گا کہ صرف گندم کی خریداری ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کی مناسب قیمت پر عوام کو فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عبدالعلیم خان کی کابینہ میں واپسی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور عبدالعلیم خان کو جاننے والوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کے آنے سے عوام کے مسائل میں کمی آئے گی، گورننس بہتر ہو گی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاملات بہت زیادہ بگڑ چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ عبدالعلیم خان جیسا تجربہ کار منتظم بھی ابھی تک بنیادی چیزوں میں الجھا ہو ہے۔
اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا، ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے حکومت نے ایک مرتبہ پھر پیٹرول سستا کر دیا ہے۔ ریسٹورانٹس، میرج ہالز اور دیگر تقریبات پر بھی پابندی ہے یوں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے طریقہ کار کے مطابق بھی حکومت کے لیے آسانی ہے۔ اس کے باوجود قیمتوں کا مسلسل بڑھنا اداروں کی ناکامی اور متعلقہ وزارتوں کی عدم توجہ کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ان کی پریشانی ابھی تک برقرار ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ان کی ٹیم کے اہم اراکین اس اہم ترین شعبے میں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
حکومت کو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے کئی مواقع ملے ہیں لیکن ان سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں لگ بھگ چالیس روپے کی کمی ہو چکی ہے لیکن کیا اس بڑی کمی کا عوام کو فائدہ پہنچا ہے اگر عوام کو حقیقی فائدہ نہیں ملا تو محترم وزیراعظم کو اس حوالے سے فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر فوری طور پر انکوائری کروائی جائے اور اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ مشکل وقت میں یہ عوام کی سب سے بڑی خدمت ہو سکتی ہے اگر حکومت کرنا چاہے یا اس کے وزراء اس کام میں سنجیدہ ہوں۔ یاد رکھیں یہ وقت عوام کی خدمت کا ہے اسے بیانات جاری کرنے اور تقریروں میں ضائع نہ کریں اگر اس وقت بھی مہنگائی پر قابو نہ پایا جا سکا تو پھر کبھی عوام کو ریلیف نہیں ملے گا۔

ای پیپر دی نیشن