پنجابی، اردو، بلوچی بولنے والوں کی تعداد میں کمی، پشتو، سندھی، سرائیکی بولنے والوں میں اضافہ
اعدادوشمار بے شک ایک گورکھ دھندا ہوتے ہیں مگر ان میں ہی حالات و واقعات کی دلچسپ تصویر چھپی ہوتی ہے۔ مستقبل کے حوالے سے یہ بہت سے ان کہی ان سنی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ عام آدمی اس میں الجھنے سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ وہ صاف بات کرنا اور سنناپسند کرتا ہے۔ اس کے نزدیک 2 جمع 2 چار ہوتے ہیں اسے 22 شمار کرنا عام آدمی کیلئے خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اب قومی ادارہ شماریات جس کام ہے جمع تفریق تقسیم اور شمار کرنا ہوتا ہے۔ اس ادارے کی طرف سے 2017 کی مردم شماری کی رپورٹ میں ایک دلچسپ بات سامنے آئی ہے۔ جس میں لوگوں کی دلچسپی کا مواد ضرور ہے ۔ وہ اس حوالے سے اس رپورٹ کے اعدادوشمار میں ضرور دلچسپی لیں گے کیونکہ اس کا تعلق ان کی مادری زبانوں سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجابی جو اب بھی پاکستان میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے اس کے بولنے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ جو 44.15 فیصد سے کم ہوکر 38.78 فیصد ہوگئی۔ اسی طر ح اردو بولنے والے 7.57 سے کم ہوکر 7.08 اور بلوچی بولنے والے 3.57 سے کم ہوکر 3.02 فیصد ہوگئے ہیں۔ اب معلوم نہیں یہ کمی کس طرح ہوگی کیا لوگوں نے اپنی مادری زبان بدل دی ہے یا ان کی شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے یہ کمی ریکارڈ ہوئی۔اس کے برعکس پشتو بولنے والے 15.42 سے بڑھ کر 18.42 ہوگئے ہیں اس کی بڑی وجہ توافغان مہاجرین کا سیل رواں ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ سندھی بولنے والے بھی 14.10 سے بڑھ کر 14.57 ہوگئے۔ یونہی سرائیکی بولنے والے 10.57 سے بڑھ کر 12.19 ہوگئے۔ شاید اب سرائیکی بیلٹ میں بھی اپنی مادری زبان علیحدہ منوانے کی خواہش زور پکڑ گئی ہے تاکہ علیحدہ صوبے کی بنیاد کو مزید مستحکم بنایا جاسکے۔ ورنہ پنجابی اور سرائیکی کو یکجا بھی کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
برطانوی وزیراعظم نے تیسری شادی کرلی
ویسے تو ایک سے زیادہ شادی کرنا کوئی بری بات نہیں۔ ہمارے ہاں بھی بڑے فخر سے چار شادیوں کی اجازت کا تذکرہ کیا جاتا ہے باقی مذاہب میں البتہ اتنی کھلی چھٹی نہیں ہے۔ ہندومت، عیسائیت اور یہودیت میں ایک ہی بیوی پر ساری زندگی گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ ان میں خود مر کر یا بیوی کے مرنے سے یہ رشتہ ختم ہوتا ہے کیونکہ وہاں طلاق کا تصور نہیں مگر جب سے یورپ اور دنیا بھر میں جدیدیت کی لہر آئی اس نے ان مذاہب کی پابندی کو بھی ہوا میں اڑا دیا ہے۔ اب وہاں بھی ایک دو تین یا اس سے بھی زیادہ شادیاں کی جاتی ہیں اس طرح طلاق بھی عام ہے۔ ہالی ووڈ کی اداکارہ الزبتھ ٹیلر کا تو گیارہ سے زیادہ شادیاں کرنے کا ریکارڈ ہے۔ اب برطانوی وزیراعظم جو شکل سے بدھو تو ضرور لگتے ہیں اتنے دل پھینک ہوں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ موصوف نے نہایت خاموشی سے اپنی محبوبہ کہہ لیں یا گرل فرینڈ سے تیسری شادی کرلی۔ یہ ان کی توتیسری مگر کیری سائمنڈر کی پہلی شادی ہے۔ معلوم نہیں بورس جانسن نے اپنی پہلی دو عدد بیویوں سے اس کی اجازت لی ہے یا نہیں۔ یہ ان کا گھریلو معاملہ ہے وہ جانیں۔ یورپ میں ہماری طرح کی سماجی روایات نہیں کہ پہلی بیوی یا پہلی دو بیویاں اچانک شادی کی تقریب میں رونما ہوکر ساری تقریب کو تہہ وبالا کرتے ہوئے دولہا کی جان کو آتی ہیں اور سہرے کے پھول اپنے جوتیوں تلے مسلتی ہیں۔ کئی مرتبہ تو دولہا بننے والا حجلہ عروسی کی جگہ ہسپتال کے بیڈ پر زخمی پڑا کراہ رہا ہوتا ہے۔ اب برطانوی وزیراعظم جانسن بورسن نے اپنی محبوبہ سے شادی کرکے ثابت کردیا ہے کہ محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ویسے بھی یورپ میں شادی یا طلاق کو برا نہیں سمجھا جاتا۔
٭٭٭٭٭
کفن کیلئے بھی پیسے نہیں گھر کا قبضہ چھڑایا جائے ،بیوہ کی وزیراعظم سے فریاد
ٹیلی فون پر یہ فریاد سننے کے بعد گرچہ وزیراعظم نے خاتون کو تسلی تو دی ہے مگر یہ تسلی کافی نہیں۔ چند روز میں اس بیوہ کی فریاد کا اثر بھی نظر آنا چاہئے ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔ وزیراعظم کے سامنے جو کیس اس بیوہ خاتون نے پیش کیا وہ قبضہ گروپ کیخلاف ہے جن سے سارا پاکستان تنگ ہے۔ کہتے ہیں شہنشاہ جہانگیر نے اپنے محل کے باہر زنجیرعدل لٹکا کر رکھی تھی جسے فریادی جب چاہے آکر ہلا دیتا۔ بادشاہ جھروکہ میں آکر فریادی کی فریاد سنتا اور اس کی دادرسی کے فوری احکامات جاری کرتا جن پر فوری عمل ہوتا۔ اب جدید دور ہے ہمارے وزیراعظم ٹیلی فون پر وقفہ وقفہ سے عوام سے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کے حال احوال سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان سے بھی لوگ اپنی مشکلات بیان کرتے ہیں زیادہ شکایات مہنگائی روزگار کے حوالے سے ہوتی ہیں۔ ان پر تو آج تک وزیراعظم کے کسی حکم پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔ اب دعا ہے اس خاتون کے آنسوئوں کی لاج رکھتے ہوئے وزیراعظم قبضہ گروپوں کیخلاف سخت ترین کارروائی کا حکم دیں اور ملک بھر میں اس خاتون کی طرح ہزاروں بے بس مظلوموں کو بھی انصاف ملے اور ان کے گھر، زمینیں اور دکانیں اس مافیا کے قبضے سے آزاد ہوں۔
٭٭٭٭٭
’’غزہ کا ہسپتال محفوظ ہے‘‘ اسرائیل کے سابق وزیر دفاع کی غلط بیانی، پاکستانی ہسپتال کی فوٹو دکھائی
جھوٹ بولنا تو کوئی اسرائیلی حکمرانوں سے سیکھے۔ کیا موجودہ کیا سابقہ ان سب کا کام ہی جھوٹ اور وہ بھی متواتر جھوٹ بولنا ہے۔ غزہ اسرائیلی بمباری کے بعد شہر خاموشاں کا منظر پیش کررہا ہے۔ وہاں شاید ہی کوئی بڑی عمارت سلامت نظر آتی ہو۔ ہر طرف ملبے کا ڈھیرا بکھرا ہوا ہے۔ کیا بلڈنگ کیا گھر کیا مسجد کچھ بھی تو سلامت نظر نہیں آتا۔ ہسپتال، سکول تو خاص طور پر بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کا ثبوت شہید ہونے والوں میں کئی درجن معصوم بچے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیر دفاع کو دیکھیں کس ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے ایک نجی ہسپتال کی تصویر میڈیا پر دکھا کر اسے غزہ کا ہسپتال قرار دے رہا ہے کہ یہ محفوظ رہنے والا ہسپتال ہے۔ اس طرح یہ قصاب اپنی رحم دلی اور ہسپتالوں کو نشانہ نہ بنانے کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ میڈیا اب اتنا بھی ’’بھولا‘‘ نہیں رہا۔ لوگ ہر چیز کی خبر رکھتے ہیں۔ اسرائیلی سابق وزیر کے اس جھوٹ کا پردہ چند لمحوں بعد ہی فاش ہوگیا جب لوگوں نے پاکستانی ہسپتال کی تصویر لگا کر دنیا کو دکھلایا کہ یہ غزہ کا کوئی بچ جانے والا صحیح سلامت ہسپتال نہیں یہ پاکستان کے ایک ہسپتال کی تصویر ہے۔ معلوم نہیں اپنا جھوٹ پکڑے جانے پر اس جھوٹے شخص کی کیا حالت ہوگی۔ ویسے بھی ان اسرائیلیوں پر دنیا بھر کی لعنت ملامت کا کچھ اثر نہیں ہوتا ورنہ یہ کب کے سدھر چکے ہوتے اور مسئلہ فلسطین حل ہوچکا ہوتا۔
٭٭٭٭٭
منگل‘ 20؍ شوال 1442ھ‘ یکم جون 2021ء
Jun 01, 2021