ہم یہود یا مسیحیوں کے خلاف نہیں بلکہ اس قوم کے خلاف ہیں جو کشمیریوں اور فلسطینیوں سمیت کہیں بھی انسانیت کے خلاف ظلم و استحصال کرے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہم یہود یا مسیحیوں کے خلاف نہیں بلکہ اس قوم کے خلاف ہیں جو کشمیریوں اور فلسطینیوں سمیت کہیں بھی انسانیت کے خلاف ظلم و استحصال کرے۔ یہودیت اور مسیحیت کا قرآن میں بھی ذکر ہے، گزشتہ 6 دہائیوں میں مسلم امہ نے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے،قوموں کے درمیان اشتراک پیدا کرنے کی ضرورت ہے، دنیا کو انسانیت کا احساس رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے، ای سی او ممالک درپیش مسائل کے حل اور ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے مضبوط شراکت داری قائم کریں۔صدر مملکت منگل کو اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او)کی پارلیمانی اسمبلی کی جنرل کانفرنس کی افتتاحی نشست سے خطاب کر رہے تھے۔ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیر خارجہ کے ایک بیان پر لیبل لگایا گیا کہ آپ یہودیوں کے خلاف بات کررہے ہیں لیکن اس حوالے سے بالکل واضح رہنا چاہیے کہ جب ہم فلسطینیوں پر ظلم کی بات کرتے ہیں تو وہ یہود مخالف بات نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لیبل لگا کر دنیا کو دکھایا جاتا ہے اور ہولوکاسٹ یاد دلایا جاتا ہے جبکہ ظلم بھی وہ قوم کررہی ہے جو خود اس قسم کے مظالم سے گزری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہود مخالف نہیں ہیں بلکہ صیہونیت مخالف، اسرائیل مخالف اور نسلی عصبیت کے خلاف ہیں جو نسلی تعصب جنوبی افریقہ سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور کشمیر میں بھی اب یہ کیفیت پیدا ہوتی جارہی ہے، ہم نسل کشی کے خلاف ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ اگر گزشتہ 60 سے 70 برس میں کوئی قوم مشکلات سے گزری ہے تو وہ مسلم امہ ہے جس کی لاکھوں جانیں عالمی طاقتوں کی دشمنی میں قربان ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے فورمز اس وقت اقتدار سے عاری اور اپنے مفادات، خواہشات اور ضروریات کی بنیاد پر اکٹھا ہوتے ہیں جس میں اخلاقیات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کو انسانیت والی لیڈر شپ ضرورت ہے، جیسا انقلاب نبی کریم ۖ لے کر آئے جس میں ماحولیات، انسانیت کو اہمیت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ اخلاقیات، انصاف اور انسانیت مسلمان معاشرے کی بنیاد بنی تھی جیسے جیسے مسلمان معاشرے نے اس بنیاد کو چھوڑا تو دیگر اقوام نے ہمارے ساتھ وہ کیا جو ترقی یافتہ قومیں کمزوروں کے ساتھ کرتی ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ جب ناموس رسالت ۖ کے حوالے سے دنیا کو کہا جائے کہ اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں تکلیف پہنچائی جائے تو دنیا ہماری بات نہیں سنتی کیوں کہ ہم کمزور ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں دہرے معیار ہیں، یورپ میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے لوگوں کو بات کرنے سے روکا جاتا ہے اور جو اسے چیلنج کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے کیوں کہ وہ ان کے ضمیر پر بھاری ہے ان کے لیے تکلیف دہ ہے لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ نبی ۖ جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے خلاف بات کرنے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو دنیا ہماری نہیں سنتی۔انہوں نے مزید کہا کہ قوموں کے درمیان اشتراک پیدا کرنے کی ضرورت ہے، دنیا کو انسانیت کا احساس رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے۔صدرعارف علوی نے کہا  کہ   خواب کی تعبیر محنت اور عمل سے ہوتی ہے ، مسلمان دہشت گردی سے گزرے ہیں اور آزادی حقیقی تحریکوں کو بھی دہشت گردی کے تناظر سے دیکھا گیا، بھارت دنیا کو مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل فلسطین کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں خود بھی مسائل ہیں جس میں عدم برداشت سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو قوموں کو ترقی نہیں کرنے دیتی۔صدر مملکت نے کہا کہ ہم نے انتہا پسندی کا سامنا کیا ہے جس میں مذہب کی تشریح میں شدت پسندی اختیار کی گئی اور دنیا کو اسلام کا وہ رخ دکھایا گیا جو حقیقت سے دور تھا۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب کورونا وائرس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سوچ اور تعصب پایا جاتا ہے اس کا تحریروں، پہنچ، سوشل میڈیا، ٹیلیویژن اور اچھے کاموں کے ذریعے مقابلہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا صرف اس ذکر کی بات نہیں کہ ہمیں تکلیف پہنچتی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر قوموں کی پالیسیز بن جاتی ہیں اور اگر کبھی انہیں احساس ہوتا بھی ہے تو اس کا ذکر نہیں ہوتا۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کووِڈ 19 کا پاکستان نے جس نظم و ضبط کے ساتھ مقابلہ کیا اس کی بڑی اہمیت ہے، ایک جذبہ یہ تھا کہ لاک ڈاون کر کے لوگوں کے روزگار کو ختم نہیں کیا جائے گا اور اس میں اللہ نے برکت دی۔انہوں نے کہا کہ جو اقوام ترقی کرتی ہیں ان میں تنظیم کی اہمیت موجود ہے، مغربی یورپ میں ادارے بنے وہاں ترقی ہوئی جبکہ مشرقی یورپ کئی صدیوں تک پیچھے رہا۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں اقتصادی تعاون تنظیم کے توسط سے آپس میں تعلقات بہتر بنانے چاہیے اور تجارت کے بھی بہت سے مواقع موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس پلیٹ فارم میں شامل ممالک آپس میں دوستی کو فروغ دیں اور ترقی کے راستوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔صدر مملکت نے  نے نشاندہی کی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری تعاون کی ایک شاندار مثال ہے جو وسط ایشیائی ملکوں کو سمندروں سے ملائے گی۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کی مشترکہ تاریخ ، ثقافت اور مضبوط تجارتی روابط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رقبے اور بڑی آبادی کے حامل اس خطے میں بھر پور صلاحیت موجود ہے ۔عارف علوی نے کہا کہ ہمیں اپنے بیانیے کو موثر انداز میں فروغ دینے کیلئے بہتر کام کرنا ہو گا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے روابط کو بڑھانا ہو گا۔صدر نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے تنازع کا حل افغانستان اور خطے کے مفاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے مظالم کا سامنا کرنے کا ایک طریقہ اپنی معیشت اور معاشرت کو طاقتور کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن