ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی روندی جاتی ہے

جس طرح پاکستان کے طاقتور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر پاکستان کو کچھ ہو گیا تو بھی کونسی بڑی بات ہو جائے گی،ہم کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں گے جہاں ہم نے ’’انوسٹ منٹس‘‘بھی کر رکھی ہیں اورجہاں کی شہریت بھی ہمارے پاس ہے؟ اسی طرح دنیا کے طاقتور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر دنیا کو کچھ ہو گیا تو بھی کونسی بڑی بات ہو جائے گی، ہم کسی اور سیارے پر چلے جائیں گے؟کون نہیں جانتا کہ اب یہ دنیا ہو یا کوئی اور ، اس پر راج وہی کرے گا جس کا راج خلا پر ہوگا، اور خلا تک پہنچنے کے لئے خلائی جہاز ضرورت ہوتے ہیںجن کی افادیت اورپائیداری کا دارومدار اُن دھاتوں پر ہوتا ہے جو  ان جہازوںمیں استعمال کی جاتی ہیں؟اِس مقصد کیلئے زمین پر پائی جانے والی دھاتوں میں سب سے خالص سونا ہوتا ہے جس کے بعد تانبے کا نمبر آتا ہے۔ 
یہ بھی کسے معلوم نہیں کہ آج کی دنیا میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائرجس کان میں موجود ہیں وہ ضلع چاغی ، بلوچستان میں واقع ہے اور اس کا نام  ریکو ڈک ہے جہاں صرف سونے کے ذخائر (جو دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں)  100کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن سے روز سونا نکالا جائے تو بھی (ایک محتاط اندازے کے مطابق)  اسے نکالنے میں کم و بیش 50برس لگ جائیں گے۔یہ سونا 4کروڑ اونس سے بھی زیادہ ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ریکوڈِک میں6ارب ٹن تانبا بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان لڑی جانے والی ’’پراکسی وار‘‘ کا میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔
سامراجیت کی یہ جنگ اس سے پہلے افریقہ میں لڑی گئی جب صنعتی انقلاب(جو 1760سے 1840کے درمیان آیا) سے فائدہ اٹھانے والی قومیں قدرتی وسائل سے مالامال اس خطے پر چڑھ دوڑیں اور اسے اس بے دردی سے لوٹا کہ افریقہ کے لوگ آج بھی روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں، خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، اورکوئی بھی کہیں بھی کسی کوبھی لوٹ یا مار سکتا ہے۔افریقہ کے بعد سامراجی ہاتھی ایشیا میں بھی لڑنے لگے اورگھاس ہمارے یہاں بھی روندی جانے لگی۔ جرمنی نے ان ’’مارکیٹوں‘‘پر قبضہ کر لیا جو پہلے فرانس اور برطانیہ کے زیرِتسلط تھیں،چین کے علاقے منچوریا پر روس کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں لیکن اس پر جاپان قابض ہو گیا،چین پر تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب برطانیہ فرانس اور امریکہ اسے آپس میں تقسیم کرنے والے تھے لیکن قوم پرست چینیوں نے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا جو سامراج کے ہاتھوں میںکھیل رہی تھی ،ترکی کو بھی مل بانٹ کر کھانے کی سکیم بنائی گئی جو اس لیے ناکام ہوئی کہ روسی سامراج یورپی سامراج کی مخالفت پر اتر آیا اوراس کی امداد سے ترکی نے( مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں ) اٹلی کو میدانِ جنگ سے مار بھگایا،یہی نہیں بلکہ ملائیت کا خاتمہ کر کے ایک مضبوط و مستحکم ترکی کی بنیاد بھی رکھ دی۔
 سامراجیت ہی کی بدولت دنیا دو عالمگیر جنگوں کا  شکاربنی اور نوعِ انسانی کی تقدیر پر وہ شرمناک دھبے لگے جو قیامت تک نہیں مٹ سکتے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ یکسر تبدیل ہوگئے،دنیا طاقت کے دو ستونوں کے گرد گھومنے لگی ایک امریکہ اور دوسراسوویت یونین،تمام ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی یا سوویت سامراج کے نرغے میںآ گئے اور دنیا کے وسائل پر قبضے کی ایک ایسی کشمکش کا آغاز ہو گیا جسے ’’سرد جنگ‘‘ کا نام دیا جاتاہے۔اس جنگ کو دو معاشی نظاموں کی جنگ بھی قرار دیا جاتا ہے،سرمایہ دارانہ نظام جس کے تحت دولت چند ہاتھوں میں محدور ہو کر رہ جاتی ہے اور کمیونزم جس کی رو سے دولت کو تمام طبقوں میں مساوی طور پر گردش کرتے رہنا چاہیے ۔بہرطورسرد جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے تک جاری رہی اور اس دوران ہر دو سامراجی قوتوں نے دیگر ممالک پر اپنا اثرو رسوخ جما کر ان کی قومی و بین الاقوامی پالیسی کو اپنی گرفت میں لیے رکھا جس سے سامراجیت کو ایک نئی جہت ملی لیکن سرد جنگ کے خاتمے پر امریکہ واحدسوپر پاور بن گیا۔ امریکہ کچھ عرصے تک تو تن تنہا ہی ساری دنیا کو اپنے مفادات کی چکی میں پیستا رہا لیکن پھر چین مقابلے میں آگیا ۔
خدا جانے ہماری عقل میں یہ سیدھی سی بات کیوں نہیں آرہی کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہورہا ہے اور اس سے کتنے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے
 ہیں؟ کیا عجب ہے کہ ہمارا حال بھی افریقہ کے کسی اجڑے پجڑے ملک جیسا ہو جائے جبکہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں پہلے سے ہی بدترین دھڑے بندی کا شکار ہو چکے ہیں؟
 سامراجیت اپنے پنجے ان ممالک پر گاڑتی ہے جہاں جہالت اور قدامت کا راج ہو،اسلاف پرستی اور مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہو،لوگ بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ سے لاتعلق ہو کر معمولی نوعیت کی گُتھیاں سلجھانے میں الجھے ہوں، اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کا راج ہو، قومی زندگی کے رگ و ریشے میں کرپشن اور نااہلی کا زہر لہو کی طرح گردش کرے، حکمران اپنے قومی اختیارات کا استعمال ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کریں، قانون اورمیرٹ نام کی کوئی شے کہیں دکھائی نہ دے،تجدید اور ایجاد کی راہیں مسدود کر دی جائیں،سائنس و ٹیکنالوجی کا پیڑجڑوں تک سوکھ جائے،عوام کو بالعموم اور اشرافیہ کو بالخصوص وہ کھانے اور پہننے کی عادت پڑ جائے جو اپنے کھیتوں میں اُگتا ہو نہ اپنے کارخانوں میں بنتا ہو۔
شاید آپ کو خبر نہ ہو کہ ہم جس شاخ کو کاٹ رہے ہیںاسی پر خود بھی کھڑے ہیں لیکن کوئی اس الٹے کام کی نشاندہی کرے تو برا مان جاتے ہیں۔۔وہ  پھر  بھی  باز نہ آئے تو یہ کہلوانے کے لیے اس کی کنپٹی پر بندوق رکھنے  سے بھی گریز نہیں کرتے کہ جس شاخ پر ہم کھڑے ہیں اسے کاٹنے سے ہم نہیں گریں گے ۔

ای پیپر دی نیشن