’شوق دا کوئی مل نہیں‘پنجابی کے اس معقولے کی بہت سی عملی مثالیںہیں ۔مگر آج میں جو مثال پیش کرنے جا رہا ہوں وہ ایک ایسے عمر رسیدہ شخص کی ہے جنہوں نے 87سال کی عمر میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ’کلام ِعلی حیدر ملتانی کا اسلوبیاتی تنوع‘ کے موضوع پرتحقیقی مقالہ لکھ کر’Ph.D‘کی ڈگری حاصل کی۔ اسی یونیورسٹی سے 81سال کی عمر میں’ایم فل‘ کرنیوالے وہ دنیا کے پہلے سکالر بھی ہیں۔الحمد للہ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں اس کام کا محرک بھی ہوں اور ان کا نگران بھی۔ اس بزرگ ہستی کا نام’ عبدا للطیف چودھری‘ہے مگر شائد اس نام سے انہیں جاننے والا آج اکا دکا ہی ہو،کیونکہ ادبی دنیا میں وہ ’حنیف چودھری‘ کے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں۔ حنیف چودھری کو دنیا احتراماً اور میں بے تکلفی میں ’ بابا جی‘ کہتا ہوں۔
دستاویزی شہادتوں کیمطابق حنیف چودھری 10اکتوبر 1930کو مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر کے گاؤں ’خورشید پور ‘میںپیدا ہوئے۔ اصل تاریخ پیدائش 1929ہے۔خود بتاتے ہیں کہ’ جب پاکستان بنا تو میں 18برس کا تھا اور میٹرک کر چکا تھا‘،والد پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر اور چار مربع اراضی کے مالک تھے۔تین بہن بھائیوںوہ سب سے چھوٹے ہیں۔ اپنے تایا کے ہاں پلے بڑھے، کیوں کہ انکے ہاں اولاد نہیں تھی، وہ بھی اسی گاؤں میں رہتے تھے۔ 1947 کے فسادات کے دوران لٹے پٹے پاکستان پہنچے۔ خاندان بورے والا میں مقیم ہوا۔ 1948 میںوہ روزگار کی تلاش میں ملتان آ گئے، مختلف محکموں سے ہوتے ہوئے صحافت کی طرف آئے ۔روزنامہ’امروز‘ سے وابستہ ہوئے اورامروزکی بندش تک اس سے وابستہ رہے۔میاں افتخارالدین نے 15 مئی 1946میں اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی ،جس نے4 فروری 1947 کو روزنامہ’امروز‘ کا آغاز کیا۔ یوں تقسیمِ ہند سے پہلے چھپنے والے روز ناموں میں امروز کا اضافہ ہوا۔یہ اخباربائیں بازو کی نمائندگی کرتاتھا۔اپریل 1952 میں اسے پرو گریسیو پیپر لمیٹڈ کے تحت دے دیا گیا۔ 1964میں ایوب خان کے زمانے میںنیشنل پریس ٹرسٹ بنا تو امروزاسکی طرف سے شائع ہونے لگا۔ اپنے وقت کا سب سے مقبول اخبار رہا۔ ملک کے معروف صحافی اس ادارے سے وابستہ رہے۔ جن میں فیض احمد فیض، زیڈ اے سلہری، ظہیر کاشمیری، حمید اختر،احمد ندیم قاسمی،حمید جہلمی، منو بھائی، شفقت تنویر مرزا، عزیز اثری، مسعود اشعراس شامل ہیں۔ ان صحافیوں کی پیشا ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف ایک زمانا کرتا ہے۔
ایک واقعہ ’بابا جی‘ کی زبانی سنا۔’یہ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد کی بات ہے ۔بھٹو نے اقوامِ متحدہ میں خطاب کے دوران ایک جملہ کہا"I don't believe in political cosmetics"اس روز بھٹو کی تقریر اخبار کی شہ سرخی بننے جا رہی تھی۔ یہ خبرانکے پاس ترجمے کیلیے آئی۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔اپنے جونیئر سینئر سے رابطہ کیا مگر بات نہ بنی،بعض احباب نے مشورہ دیا ’دفع کرو‘،سیاسی اعتبار سے جملہ معنی خیز تھاکہ بھٹوکے منہ سے نکلا تھا، اسے غیر اہم کیسے سمجھا جاتا؟ انہوں نے رات ایک بجے’مسعود اشعر‘ کو فون کر کے سوتے میں جگا کر مشکل بیان کی،’ بھٹو کی تقریر کا یہ جملہ ترجمہ نہیں ہو رہا، کاپی پریس جانیوالی ہے‘، انہوں نے بغیر توقف کے کہا،’اس میں پریشانی کیا ہے؟ لکھو،میں کسی ’سیاسی لیپا پوتی‘پر یقین نہیں رکھتا‘ انہی مسعود اشعر کی وفات پر انہیں ان الفاظ سے خراجِ عقیدت پیش کیا ’مسعود اشعر کی وفات سے صحافت کا پاکیزہ دروازہ بند ہو گیا، وہاں صحافت کو صحت مند بنانے کی روایت بھی وقت کی محرابوں میں گم ہو گئی، امروز کی’ سرخ پیشانی‘ کو سبز رنگ میں تبدیل کرنیوالے اپنی موت مر چکے مگر مسعود اشعر کی فکری نہج کو نہ بدل سکے‘۔
حنیف چودھری نے ادبی سفر کا آغاز کہانی نویس کے طور پر کیا۔69ء میں ان کہ کہانیوں کا پہلا مجموعہ’کچ دی گڈی‘ چھپا۔میں نے1975میں بی اے میں داخلہ لیا توکالج میں پنجابی شعبہ اسی سال شروع ہوا۔ پنجابی پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا، یہ شوق لائبریری سے دوستی کا سبب بنا ،وہیں ’کچ دی گڈی‘ کی وساطت سے حنیف چودھری سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اردو روزناموں میں امروز نے 52ء میں پنجابی صفحہ شامل کرنا شروع کر دیا تھا۔اس ادبی صفحے نے بھی شوق کو مہمیز کیا۔ وہاں حنیف چودھری سے تعلق مستحکم ہوتاگیا، لکھنے کا شوق بھی پرانا تھا،کالج دور میں شاعری شروع کی تو پہلی غزل امروز میں چھپی، 83میں میری تعیناتی بطور’ ضلع دار‘ مظفر گڑھ ہوئی تو ملتان سے ہو کر جاناہوتا۔ عبداللطیف اختر تب نوائے وقت میں ہوا کرتے تھے، انہوں نے نوائے وقت میں لکھنے پر زور دیا۔تب نوائے وقت اور امروز ملتان کے دفاتر حسن پروانہ کالونی میں تھے، مین روڈ پر امروز اور پچھلی گلی میں نوائے وقت۔ حنیف چودھری سے پہلی بالمشافہ ملاقات 83میں وہیں ہوئی۔ ایک دن مظفر گڑھ سے واپسی پر امروز کے دفتر جانا ہوا، حنیف صاحب کاپوچھنے پرایک صاحب اوپر کمرے میں لے گئے، سامنے بیٹھے ایک شخص کو مخاطب کرکے کہاــ حنیف صاحب! آپ کے مہمان‘،وہ صاحب تپاک سے ملے، کہا ’فرمایئے، کیا خدمت کر سکتا ہوں؟یہ در اصل مرزا ابنِ حنیف تھے( جو بعد میں عالمی شہرت یافتہ محقق کے طور پر جانے گئے)حنیف چودھری کا سفر نامہ’بھارت پھیری‘ تازا تازا چھپا تھا جس کی پشت پر ان کی بڑی بڑی مونچھوں والی تصویر تھی(میں نے وہ دیکھ رکھی تھی)میں نے کہا ، ’مجھے حنیف چودھری سے ملنا ہے‘ ، پتا چلا وہ ابھی دفتر نہیں پہنچے، آنے والے ہیں۔ دوران گفتگو چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے نام بتایا توپتا چلا ادبی حوالے سے وہ میرے نال سے واقف تھے۔ اسکے بعد ملاقاتوںکا سلسلا نہ ختم ہونے والے دوستی کے تعلق میں بدل گیا ۔چند سال بعد ایریگیشن چھوڑ کر محکمہ تعلیم میں آیا توجی سی ملتان میں تعیناتی ہوئی ،یوں چودھری صاحب سے دوستی اور مستحکم ہوتی چلی گئی۔عالمی شہرت کے ادیب سے تعلق کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔( جاری)
’شوق دا مل نہیں‘دنیا کے عمر رسیدہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر
Jun 01, 2022