قرآن پاک میںاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔کہ خداوند کریم کے حضور سب سے زیادہ محترم اور قابل عزت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ۔ قرآن کریم متقی لوگوں کی ہدایت کیلئے ہے اور بزرگان دین کا وصف اولین تقویٰ ہی رہا ہے ۔ قرآن مجید میں تقویٰ کاذکربار بار آیا ہے ۔ تقویٰ کے معنی پرہیز گاری کے ساتھ ڈرنے اور بچنے کے بھی ہیں یعنی نیکی اور ہدایت کی راہ اختیار کرنا ہے اور یہ دل کی ا س کیفیت کا بھی نام ہے جس کے ذریعے دل نیک کاموں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے اور اس کی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن حکیم میں ارشاد ہے ۔مفہوم ’’ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو (سورۃ البقرہ 278) اور اگرتقویٰ کے ساتھ آگ یا گناہ کا ذکر ہو تو وہاں تقویٰ کے ذریعے ان سے بچنا مرادہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے ۔مفہوم ’’اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں (سورۃ البقرہ 24)تقویٰ تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا نچوڑ ہے اور یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب آسان ہوجاتاہے قرآن پاک میں بہت ساری آیات ِ کریمہ تقویٰ کی اہمیت اور افادیت پر نازل ہوئی ہیں تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم کی وجہ سے حرام ،ناجائز اور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کو کرنے کی کبھی جرات نہیں کرے گا۔ تقویٰ اصل میں وہ قیمتی سرمایہ ہے جو تعمیر، سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات اور اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود اور فلسفہ تقویٰ کی روح کا مرہون منت ہے۔ قرآن حکیم میں سورۃ العمران کی آیت نمبر76میں ارشاد ربانی ہے۔مفہوم ’’اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں متقیوں کو ۔ان قرآنی آیات سے ثابت ہوا کہ متقی اللہ تعالی کا محبوب ہے۔ اللہ تعالی کے دوست اور محبوب کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ متقی کا اللہ تعالیٰ معاون ومدد گار بن جاتا ہے اور بے پناہ محبت کرتا ہے ۔ متقی کو اللہ تعالیٰ دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے، اسے ہر قسم کے اندیشوں کے تفکرات سے آزاد فرما دیتا ہے اور دانائی اورحکمت سے بڑھ کر ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز فرما دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ جس سے راضی ہوتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکر مﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد اور بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو،کسی کی بیع پر بیع نہ کرو ، اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جائو ،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور اس پر ظلم نہ کرے، اس کو حقیر نہ جانے۔ آپ ﷺنے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا تقویٰ یہاں ہے ۔ کسی شخص کے برے ہونے کیلئے کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو برا جانے اور ہر مسلمان کا خون ، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے۔(صحیح مسلم )
حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا، اے لوگو سنو! تمہارا رب ایک ہے اور کسی عربی کو عجمی پراورعجمی کو عربی پر،گورے کو کالے اور کالے کو گورے پرکوئی فضیلت نہیں اور یہ صرف تقویٰ سے ہے ۔ (مسند احمد بن حنبلؓ) ۔حضرت معاذ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا شاید اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کرو گے ۔حضرت معاذ ؓ آپﷺ کے فراق کے صدمے میں رونے لگے ۔
اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقویٰ ہے۔ اللہ تعالی نے تمام انس و جن کو تقویٰ کی تلقین فرمائی ہے اور یہی دوزخ سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے ۔ تقویٰ مومینن کے لیے لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندش کھل جاتی ہے جو راستہ کومنورکرتی ہے اور اسی کی ہی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ (پرہیز گاری) ایک ایسا قیمتی موتی ہے جس کے ذریعے برائیوں سے بچنا اور نیکی کو اختیار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت علی ؓ کا تقویٰ سے متعلق ایک قول ہے کہ ’’تقویٰ‘‘ دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے،شریعت پر عمل کرنے اور جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اورقیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺکے احکامات پر عمل کرنا اور مکمل پاکباز زندگی گزارنا ہی تقوی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ہمیں ان احکامات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)