اظہارِ رائے کی آزادی ہی جمہوریت کی اصل روح ہے، زباں بندی اور اظہارِ رائے کو حکومتی طاقت کے بل بوتے دبانا آمریت کے زمرے میں آتا ہے ،یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں ایشیا کی سیاست تنگ نظری ، انتہاپسندی عدم برداشت اور موروثیت پر مبنی ہے، سیاسی جماعتوں میں دور اندیشی کا فقدان انتہا سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں غیر سیاسی افراد کا سیاست میں آجانا معاشرتی بگاڑ میں طوفان برپا کر رہا ہے، الیکشن جمہوریت کی سیڑھی ہے ، عوامی انتخاب کے عمل سے گزر کر حکومت میں آنے والی سیاسی جماعت امورِ حکومت سنبھال نہیں پاتی کہ حزبِ مخالف ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتی ہے ، سیاسی اتحاد بننے شروع ہو جاتے ہیں ، اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کر کے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر کے بھی دانش میں مندی رہتی ہے، اور حکمران آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر فرعونیت پر اتر آتے ہیں ۔
عمران خان کے آزادی مارچ کااعلان ہوتے ہی حکومت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی منصوبہ بندی شروع کرتے ہوئے پی ٹی آئی کارکنان اور قائدین کو حراست میں لینے کیلئے انکے گھروں پر پولیس کی مدد سے چھاپے مارنے شروع کر دیئے، پولیس کی ٹیم کا ماڈل ٹائون کے علاقے میںکرایہ داری کے سلسلے میں سرچ آپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے مقامی رہنما اور حساس ادارے کے ریٹائرڈ افسر کے گھر سے پولیس پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں پولیس کانسٹیبل کے سینے میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ، اس واقعہ سے غیر سیاسی افراد کا سیاست میں آنے سے انتہا پسندی اور دانشمندی کے فقدان کا پتہ چلتا ہے ، پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی پر مامور تھا ، اور تین کمسن بیٹوں اور دو بیٹیوں کا واحد کفیل تھا ، یہ سیاست نہیں اور نا ہی سیاسی وطیرہ ہے ایسی شدت پسندی ملک کو تباہی کے دھانے لے جارہی ہے۔پولیس کے چھاپے اور پکڑ دھکڑ کے دوران اکثر پست اخلاقیات کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے،گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ خواتین سے بد سلوکی جیسے واقعات عام سی بات ہیںلیکن قانون نافظ کرنیوالوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جس گھر کے تقدس کو وہ پامال کررہے ہیں اس گھر کی مکیںتنہا عورت ہے یا بیٹیاں ہیں ، بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں پکڑ دھکڑاور چھاپے کے دوران عورت ، گھر کی چادر اور دیواری کو ملحوظِ خاطر رکھنا دینی فریضہ بھی بنتا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے بانیان کے گھروں کے تقدس کو پامال کیا گیا ، علامہ اقبال کی بہو ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال بھی علم سے عاری تہذیب و تمدن سے نا آشنا افراد کی بد سلوکی سے نہ بچ سکیں،جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال کے ویڈیو پیغام سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق پولیس اہلکار، انکی رہائش گاہ کے مرکزی گیٹ کو پھلانگ کر اندرداخل ہوئے اور بعدازاں انکے مرکزی گیٹ کو پولیس کی گاڑی سے ٹکر مار کر توڑ دیا ،گھر کے ملازمین کو ہراساں کیا، جس سے مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی بہو کو شدید ذہنی تکلیف ہوئی ان کا کہنا تھا کہ میں ساری زندگی قانون کی محافظ رہی ہوں میرے گھر میں بغیر وارنٹ کے رات دو بجے اس طرح گیٹ توڑ کر گھس آنا کسی مہذب معاشرے کا وطیرہ نہیں اس طرح توڈاکو گھروں میں گھس آتے ہیں ۔
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف جو کہ حقیقی مسلم لیگی ہیں ،قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال جو کہ علامہ محمد اقبال کی بہو اور ہمارے معزز پارلیمنٹیرین ولید اقبال کی والدہ ہیں انکے گھر پر چھاپہ مارے جانے پر معافی مانگتا ہوں ، دراصل یہ معافی بحیثیت وزیرِ داخلہ رانا ثنا ٗ اللہ کو مانگنی چاہئے ، لیکن افسوس کہ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت پی ٹی آئی کی دیگر خواتین کو کسی نے گرفتار نہیں کیا ہے جبکہ سابق وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کی گاڑی کوانتہائی پُر تشددطریقے سے روکنے کا واقعہ دنیا کی مہذب قوموں نے دیکھا ، گاڑی میں دو خواتین تھیں ان سے پولیس اہلکاروں کی بد سلوکی ظاہر کرتی تھی کہ انہیں کسی کی بہن بیٹی کا کوئی احترام نہیں ، ڈاکٹر یاسمین راشد کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا ۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کو اینٹی کرپشن پنجاب نے لبِ سڑک انکی گاڑی روکی اور خواتین اہلکاروں نے انہیں انکی کار سے باہر نکال کر تھانے لے گئے،یہ گرفتاری بڑی عجیب تھی جس کی عدالت نے رہائی کا حکم دیا ، گو کہ ڈاکٹر شیریں مزاری پر تحریکِ انصاف کے سابق وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت میں ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب رائے منظور نے ’’ کچہ میانوالی ‘‘ زمین کی ایف آئی آر درج کروائی تھی ، اور مکمل تفتیش کا حکم بھی جاری کیا تھا ، لیکن موجودہ حکمرانوں کیلئے یہ موزوں وقت نہیں تھا کہ وہ اس کیس میں شریں مزاری صاحبہ کی گرفتاری کا الزام اپنے سر لیکر مزید دشنام طرازی کی زد میں نہ آتے، مہذب معاشرے میں پولیس کا کردار قو م اور معاشرے کا عکاس ہو تا ہے ، پولیس کا شعبہ مشاورت کے فقدان کی وجہ سے عوام میں نفرت کا موجب بن گیا ہے ، کسی گرفتاری یا چھاپے سے پیشتر محکمہ پولیس کے افسران کو چاہئے کہ سپاہیوں کو با قاعدہ اخلاقی رویے کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی تلقین کریں ، پولیس کو حکومتوں نے اپنے مخالفوں کو کچلنے اور خاموش کرانے کا آلہٗ کار بنا رکھا ہے ، لانگ مارچ سے حکومت کی گھبراہٹ معنی خیز رہی۔