کیا پھر تماشہ لگے گا ؟

امیر محمد خان 
گزشتہ تین ہفتہ روزآنہ ٹی وی پر ہر لمحہ آہ و بکاء ہی دیکھی ، اچھے خاصے لوگ ایک جماعت سے علیحدہ ہوتے ہوئے ڈھیروں آنسو نکالتے ہوئے مسلح افواج سے یک جہتی کا اعلان کررہے ہیں، یہ سب وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی نظریاتی سوچ کے سیاست کی طرف چل پڑے تھے۔ آج مسلح افواج سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں 9 مئی انکی مسلح افواج سے محبت غائب ہوگئی تھی اس لئے 9مئی کو قوم نے اور دنیا نے جو حیرت انگیز نظارے دیکھے اس میں ان میں سے کوئی ایک بھی سڑک پر یہ کہتا نظر آیا کہ یہ تباہی نہ پھیلائو اس سے ہمیں سخت سیاسی نقصان ہوگا ۔حیرت کی بات یہ بھی ہے جن کی تصاویر ، ویڈیو موجود ہیں دہشت گردی کی طرف نوجوانوں اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو راغب کرنے کی ، ’’اظہار آزادی ‘‘ کے نام پر عدالتیں انہیں فوری رہا کردیتی ہیں، مگر انہیں انجام تک پہچانے کیلئے حکومت انہیں پھر گرفتار کر لیتی ہے ، یہ عالم ہے کہ ــــ’’ تو چھوڑتے جا میں پکڑتا جائوں‘‘ اور کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے سنگین گناہوں کی ٹی وی پر بیٹھ کر معافی تلافی کیلئے آنسو نکالنے کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں۔ مگر اب اس کھیل کو تین ہفتے ہوچکے ہیںان میں سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرتے ہوئے یہ سلسلہ بند کرکے جو ملوث ہیں انہیں ان کے انجام تک پہنچایا جائے اس طرح کے عمل میں جتنی تاخیر ہوتی ہے اس کا اتنا ہی نقصان ہوتا ہے ۔ تحریک انصاف کہیں یا اب عمران خان کہیں وہ بیرون ملک انسانی حقوق کے اداروں میں پاکستان کو بدنام کرنے کے درپے ہیں، اسکے لئے ان کا نمائندہ زلفی بخاری وہاں موجود پہلے سے ہیں امریکی  اور برطانوی پاسپورٹ کے حامل ان کے مدد گار ہیں جو بیرون ملک عمران خان کی زوم میٹنگ کرارہے ہیں اور ان کا پیغام پہنچا رہے ہیں، کون بچائے گا پاکستان ، عمران خان عمران خان  کا نعرہ لگانے والے پاکستان کو بچانے والے ( بقول ان کے) عمران خان کو چھوڑ کر جارہے ہیں تو اب پاکستان کیسے بچے گا ؟ انشااللہ پاکستان تا قیامت رہے گا ، ترقی بھی کرے گا ، اس کے لئے ضروری نہیں کہ مسلم لیگ ، پی پی پی یا تحریک انصاف ہو یہ ملک اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے وہ اسے قائم رکھے گا ۔ مسلح افواج میں بھی وہ لوگ جو ملک سے واقعی محبت کر تے ہیں وہ ہماری سرحدوںکے محافظ ہیں خود جاگتے ہیں تاکہ ہم اور ہمارے بچے چین کی نیند سو سکیں، یہا ں یہ لکھتے ہوئے کہ ــ’’مسلح افواج میں وہ لوگ جو محب وطن ہیں‘‘ تکلیف ہوتی ہے چونکہ ماضی میں اس ملک نے دیکھا کہ اس ادارے کے کچھ لوگوںنے کارہائے نمایاں انجام نہیں دئیے، اور اب بھی وہ ریٹائرڈ زندگی میں بھی پاکستان کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کا عمل کررہے ہیںآج کے سپہ سالار ملک سے گندگی کا صفایا کرنے کا عزم لئے ہوئے ہیںاور جب کوئی حافظ قران اللہ کا خوف لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالی کی رضا شامل ہوتی ہے ۔ پاکستان کی گزشتہ تاریخ میں سیاست دان ملک کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی پشت پناہی سے ملک کو ترقی سے دور کرنے کی کاوشیں کرتے رہے صرف اپنے اقتدار کیلئے اور کرسیوںکی میوزیکل چیئر کھیلتے رہے ، اب بھی شائد یہ ہی ارادے ہیں ، 28 مئی کو یہ خیال شدت سے آیا کہ ایٹمی طاقت والے اسلامی ملک کو ان سیاست دانوں نے اپنے غیر ملکی سہولت کاروںکے ذریعے ایسا کردیا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت نہیں لگتا ، بلکہ نہتا ملک لگتا ہے ، جس کی وجہ ہماری تباہ حال معیشت ہے جس کی تباہی کی واحد ذمہ دار ہمارے ملک میں باریاں لگانے والے سیاست دان ہی ہیں جن کے بنک اکائونٹس میں تو ہوشرباء اضافہ ہوا مگر عوام ہوشرباء مہنگائی ، بے روزگاری میں دبے رہے اور مزید دھنس رہے ہیں، ملکو ں ملکوں کشکول لئے پھرتے ہیں اس ایٹمی طاقت کے سربراہان، جب اقتدار کی کرسی چلی جاتی ہے تو جو ممالک یا ادارے قرض دینا چاہتے ہیں وہاںسازشیں کرکے ان اداروںکو کہتے ہیں انہیں قرض نہ دینا ، ملک میں دہشت گردی کراکے بیرون ملک اپنے حواریوںکے ذریعے سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی پامالی کا رونا روتے ہیںتاکہ ملک بدنام ہو سکے ۔ ہمیں مئی کے اس مہینے میںدنیا کو یہ بتانا مشکل ہوگیا کہ ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں، ہم ایٹمی طاقت ہیں، جب عسکری اداروںپر حملے ہونگے ، شہداء کے مجسموں، یادگاروں کو آگ لگائی جائے گی تو ہم اپنے ایٹم بم کا کیا ذکر کریں۔لگتا تھا کہ انارکی سے بھر پور ملک کوئی منتشر ریاست ۔ عوام نے بھرپور انداز میں یوم تکبیر منایا جوش و جذبے کے ساتھ یومِ تکبیر کا ملک بھر میں منایا جانا بہت اچھی بات ہے لیکن ملک کو حقیقی قوت بنانے کے لیے ہمیں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک جن اقتصادی مسائل کا شکار ہے ان کی موجودگی پاکستان کے دفاعی و تزویراتی معاملات کے راستے میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس صورتحال کو مزید بگاڑنے کے لیے جلتی پر تیل کے مصداق ہے۔ ہم اپنی ناک سے دیکھتے ہی نہیںدنیا مستقبل کے پروگراموں پر کام سالوںپہلے شروع کردیتے ہیں اس ملک میںآج 23کروڑ اس میں سانس لے رہے ہیں۔سات برس بعد 2030ء میں 26 کروڑ اور 2050ء میں یہ33کروڑ ہوجائیں گے۔ آج ہمارے متعلقہ ارباب اختیار اقتصادی چیلنجوں کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ واہگہ سے گوادر تک وسائل سکڑ رہے ہیں۔ مسائل پھیل رہے ہیں۔ مقامی سطح پر فعال بلدیاتی ادارے موجود نہیں۔ ہیں تو ان کے پاس پیسہ نہیں۔ اور ہمارا پیسہ بین الاقوامی کرنسی ڈالر کے سامنے عجز کا شکار ہے۔ ۔آج ہمارے پڑوسی بھارت، افغانستان، چین، ایران، بنگلہ دیش بہت آگے نکل گئے ہیں۔ آج کی بد نظمی کے اثرات ہمیں کتنے سال برداشت کرنے ہوں گے۔ ہم میں سے، حکمرانوں میں سے بہت سے چار پانچ سال بعد نہیں ہوں گے۔ لیکن ہمارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بہوئیں اور داماد تو ہوں گے۔ کیا ان کی ذہنی اذیت روحانی کرب ہمیں اور آپ کو قبر میں چین سے رہنے دے گا۔

ای پیپر دی نیشن