کمشن کا بھی سپریم کورٹ بنچ پر اعتراض 


اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تشکیل کردہ آڈیو لیکس انکوائری کمشن کے خلاف دائر درخواستوں کے کیس میں(آڈیولیکس میں) سیکرٹری انکوائری کمیشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائے انکوائری کمیشن کے جواب میں پانچ رکنی لارجر بینچ پر اعترض اٹھاتے ہوئے کہا گےا ہے کہ اس بینچ کے لیے آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا، انکوائری کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ درخواستوں کو آرٹیکل (184) (3) کے تحت سن رہی ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کی اپنی آڈیو منظر عام پر آئی ہے، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کیسے مفاد عامہ کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں۔ انکوائری کمیشن نے جواب میں موقف اختےار کےا ہے کہ کمیشن کو معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم انکوائری کے دوران آنے والے اعتراضات کو زیر غور لایا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے نئے قانون کے آنے کے بعد بینچ کی تشکیل تین رکنی کمیٹی کا اختیار ہے، انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں کو کمیٹی کے تعین تک سنا جائے۔ انکوائری کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ جسٹس منیب اختر کا ایک آڈیو میں ذکر ہے، ایک آڈیو چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، ججز کا حلف آئین و قانون کی پاسداری کی بات کرتا ہے، کمیشن کو اب تک درخواستوں کی نقول فراہم نہیں کی گئیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا روایت کے مطابق ججز پر اعتراضات کی درخواستیں رجسٹرار آفس نہیں لیتا۔ ججز پر اعتراضات بنچ کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں۔ عدالت نے آڈیو لیکس پر بنائے گئے کمیشن کو کام سے روکنے پر جاری حکم امتناع کو برقرار رکھا۔ مبینہ آڈیو لیکس تحقیقات کمیشن کیخلاف دائر درخواستوں پر مختصر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ وکیل ریاض حنیف راہی نے بتایا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہے اس لئے میں توہین عدالت کی ایک درخواست دائر کرنا چاہتا ہوں جبکہ بنچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے جسے عدالت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا درخواست آفس میں فائل کریں جو مروجہ طریقہ ہے۔ بنچ پر اعتراضات کی درخواستوںکو آئندہ ہ سماعت پر سن کر فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بنچ پر اعتراض کی حکومتی درخواست کو نمبر الاٹ نہیں ہوا ہے۔ نمبر لگ جائے اسے سن لیتے ہیں۔ آپ درخواست کی کاپےاں تمام فریقین کو فراہم کردیں ، چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا اعتراضات پر مبنی درخواستیں کمرہ عدالت میں دی جاتی ہیں۔ آڈیو لیکس کمیشن کا جواب بھی موصول ہوگیا ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے کہا انکوائری کمیشن نے جواب میں ٹاک شوز کا بھی ذکر کیا ہے۔ ٹاک شوز میں ایک سال سے عدلیہ کا دفاع کرنے جاتے ہیں اور وہاں جو گفتگو ہوتی ہے وہ عدالت کے سامنے ہے۔ عدالت کے دروازے پر جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل شعیب شاہین کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کمیشن کے جواب پر تحریری موقف جمع کروا دیں۔ تحریری موقف آئے گا تو جائزہ لیں گے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف شکایات میں پیش رفت ،ذرائع کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہرنقوی کےخلاف شکایات پر ابتدائی مرحلہ آغاز کردیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس مظاہرنقوی کیخلاف شکاےات کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سنئےر ممبر کو بھےج دےا، کو نسل مےںشکایات پر کارروائی کا اغازتب ہو گا جب اےس جے سی کے چیئرمین چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس کونسل کے سینیئر رکن کی رپورٹ آئے گی اور اس کی بنیاد پر اجلاس بلائیں گے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود حصہ ہیں، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد احمد علی شیخ اورلاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی بھی سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں۔ چیف جسٹس اجلاس بلانے سے قبل شکاےات کو جائزے کیلئے معاملہ کونسل کے سینیئر ممبر کو بھجواتے ہیں۔جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر پاکستان بار کونسل نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور ٹیکس چھپانے سمیت دیگر الزامات پر مبنی شکایت آڈیو اور ویڈیو کلپس کے مواد سمیت سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی ہے۔ جسٹس مظاہر کے خلاف میاں داو¿د ایڈووکیٹ کی ایک اور درخواست میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر کے خلاف ریفرنس کے فیصلے تک ان کے سامنے کوئی مقدمہ نہ لگایا جائے نہ ہی انہیں کسی بینچ میں شامل کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...