نیویارک (نیٹ نیوز) ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے امریکہ میں سزا کاٹنے والی پاکستانی سائنس دان اور اپنی بہن عافیہ صدیقی سے 20 سال بعد امریکی شہر فورٹ ورتھ (ٹیکساس) میں کارزویل جیل کے اندر ملاقات کی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پاکستان منتقلی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ’عافیہ موومنٹ پاکستان‘ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ دونوں بہنوں کو 20 سال بعد پہلی ملاقات میں ایک دوسرے کو چھونے یا گلے لگنے کی اجازت نہیں تھی۔ عافیہ امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں ایک امریکی جیل میں 86 سال کی سزا کاٹ رہی ہیں، جبکہ ان کی بڑی بہن فوزیہ ان سے ملاقات کی غرض سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے ساتھ ان دنوں امریکہ میں ہیں۔ تنظیم نے اپنے بیان میں کارزویل جیل میں دو بہنوں کی ملاقات کی جذباتی انداز میں منظر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ ملاقات کے دوان پس منظر میں وقفے وقفے سے جیل کی بھاری چابیوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ بیان کے مطابق: ’ایف ایم سی کارزویل جیل کے ایک کمرے میں دو دہائیوں بعد ملنے والی بہنوں کے درمیان شیشے کی دیوار کھڑی تھی۔ اس طرح کی ملاقات شاید ہی (دونوں بہنیں) پسند کرتیں۔‘ امریکی حکام نے فوزیہ صدیقی کو عافیہ کے ساتھ ان کے بیٹے اور بیٹی کی تصویریں شیئر کرنے سے منع کیا تھا۔ بیان میں بتایا گیا: ’عافیہ کو ہلکے بھورے رنگ کی جیل کی وردی اور سر پر سفید سکارف کے ساتھ ملاقات کے کمرے میں لایا گیا، جہاں فوزیہ اپنی چھوٹی بہن کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئیں کیونکہ جیل میں مار پیٹ کے باعث عافیہ کے اوپر کے دانت غائب تھے، جبکہ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے انہیں سننے میں دشواری کا سامنا تھا۔ ’انہوں (عافیہ) نے پہلا گھنٹہ اپنی زندگی میں روزانہ ہونے والے صدمے کی تفصیلات (اپنی بڑی بہن کو) بتاتے ہوئے گزارا۔‘ بیان میں کہا گیا کہ بعد ازاں عافیہ کے وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ نے، جو ملاقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے موجود تھے، عافیہ کو اس ملاقات کے دوران بہن کے ساتھ ان کے پیاروں سے متعلق بات کرنے کی ترغیب دی۔ بیان کے مطابق عافیہ نے اپنی بہن کو بتایا: ’میں ہر روز اپنے خاندان کو یاد کرتی ہوں۔ میری ماں، میرے والد، آپ (میری بہن)، میرے بچے، میں ہر وقت ان کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘ دونوں بہنوں کے درمیان ملاقات ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ بیان میں کہا گیا کہ عافیہ کا ان کے بچوں سے متعلق ذکر 2003 تک محدود تھا کیونکہ یہی وہ وقت تھا جب انہیں کراچی سے ’اغوا‘ کیا گیا۔ ملاقات کے بعد فوزیہ نے امریکی جیل کے جونیئر افسروں کے اچھے رویے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ’جیل سے نکلتے ہوئے فوزیہ گاڑی میں چپکے چپکے رو رہی تھیں۔‘ بیان میں کہا گیا کہ آئندہ دو روز کے دوران مقدمے اور عافیہ کی رہائی یقینی بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’اگر چہ صورت حال تشویش ناک ہے لیکن ملاقاتوں اور بات چیت کا راستہ کھل گیا ہے۔ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اٹھائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج جمعرات کو دوبارہ ملاقات طے ہے اور وہ خود بھی ملیں گے۔