قبلہ حافظ تقی عثمانی کا ایک کھلا خط نظر سے گزرا، لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 11 لاکھ فوج کا سربراہ ایک حافظ قرآن ہے اور 11 پارٹیوں کا سربراہ ایک عالم دین ہے، اب شرعی نظام نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایسی صورت میں رکاوٹ صرف منافقت ہو گی۔ قبلہ نے لکھا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔
تقریباً پہلی بار ہوا ہے، یوں لکھنا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ 77ءمیں بھی ایک ”دیندار“ آرمی چیف تھا اور نوجماعتی اتحاد کا سربراہ بھی ایک عالم دین تھا۔ اسلامی نظام تب بھی نافذ نہیں ہوا تھا البتہ منافقت اور کرپشن کو ”قومی شعار“ بنایا گیا تھا۔ اور منشیات کی سپلائی گھر کی دہلیز پر ہونے لگی تھی۔
اسلامی نظام نافذ کرنے کیلئے اردگان جیسا لچک دار اور حکمت کار سیاستدان درکار ہے جو یہاں موجود نہیں۔ مذہبی رہنماﺅں نے بہت کچھ پڑھا، نہیں پڑھا تو وہ اسوہ حسنہ ہے جس میں ”تدریج“ ہے اور رحم دلی اور برداشت ہے کل عالم اسلام میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں علمائے دین منبر پر بیٹھ کر مخالفوں کو قتل کرنے کے فتوے دیتے ہیں اور پاکستان ہی دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جہاں راہ چلتے شخص کو توہین کا مجرم قرار دے کر سرعام ”لنچ“ کر دیا جاتا ہے۔ کل عالم اسلام میں مل ملا کر سال بھر میں توہین کے جتنے واقعات ہوتے ہیں، اتنے اکیلے پاکستان میں ہفتہ بھر کے دوران ہو جاتے ہیں۔
ایک اور بات بھی بہت اہم، بہت نکتے اور بہت پتے کی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اسلامی نظام نافذ ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں نہیں۔ کیونکہ یہ ”اسلام“ کے نام پر بنا ہے، اسلامی نظام نافذ کرنے کیلئے نہیں۔
_______
چلئے، یہ تو تفنن ٹھہرا، سنجیدہ بات یہ ہے کہ جب تک پاکستان میں ”اشرافیہ“ کی طاقت کم نہیں ہو جاتی، اسلام تو دور کی بات انصاف اور سماجی بھلائی کا ادنیٰ سے ادنیٰ نظام بھی نافذ نہیں ہو سکتا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانی اشرافیہ دنیا کی سب سے طاقتور اشرافیہ ہے۔ اس اشرافیہ کا ایک ”سمبل“ ایک نہایت ہی مہیب طاقتور پراپرٹی ٹائیکون ہے جس نے غریبوں کے کھربوں روپے مالیت کے قطہ ہائے اراضی ہتھیائے ہیں، بہت ہی بارسوخ تصور کئے جانے والے ریٹائرڈ حضرات غول در غول اس کے ذاتی ملازم ہیں، کسی میں جرا¿ت نہیں کہ اس کے بارے میں لفظ بھی لکھ سکے۔ ایک تازہ خبر سن لیجئے، ایک ریٹائرڈ منصف اعلیٰ کا صاحبزادہ کسی پارٹی کا ٹکٹ ایک کروڑ روپے میں بیچتے ہوئے پکڑا گیا۔ کسی اور ملک میں ہوتا تو کب کا سزایاب ہو چکا ہوتا۔ لیکن حکم آیا ہے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ کارروائی روک دی جائے۔
_______
پچھلے چار برس اس طاقتور ترین اشرافیہ نے ایک سیاسی جماعت کے روپ میں بلاشرکت غیرے حکمرانی کی۔ سال بھر پہلے ایلیٹ کلاس کی یہ براہ راست حکومت ختم ہوئی، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ عمل اس بات کا مظہر ہے کہ پہلی بار پاکستانی اشرافیہ میں کچھ کمزوری کی دراڑ پڑی ہے۔ اگرچہ یہ دراڑ فی الوقت بہت کمزور ہے، بہت معمولی یعنی بال برابر ہے لیکن پڑی تو ہے۔ شاید حافظ تقی عثمانی نے اسی سے حوصلہ پا کر یہ مطالبہ کر ڈالا ہے جو 1977ءکے بعد سے کبھی سننے میں نہیں آیا۔
_______
اشرافیہ کی یہ براہ راست حکومت کیسی چالباز تھی، اس حوالے سے پہلے ایک خبر ملاحظہ فرمائیے۔
گزشتہ روز جماعت الدعوة (کالعدم) کے شعبہ تالیف و تصنیف کے سربراہ اور عالمی شہرت کے حامل مذہبی سکالر شیخ حافظ عبدالسلام دوران حراست انتقال کر گئے۔ مریدکے میں ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور ایک بہت بڑا جنازہ حرم شریف مکّہ میں غائبانہ بھی ہوا۔ شیخ حافظ عبدالسلام نے دوران حراست قرآن پاک کی سات جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی اور ایک شرح بخاری شریف کی جو تین چوتھائی سے زیادہ مکمل ہو گئی تھی، باقی ماندہ رہ گئی تھی کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ انتقال کر گئے۔ ان کا جنازہ حافظ عبدالرحمن مکی نے پڑھایا جو خود بھی گرفتار اور سزا بھگت رہے ہیں۔
ان دونوں حضرات کو جماعت الدعوة (کالعدم) کے دوسرے رہنماﺅں کے ہمراہ 2020ءمیں لمبی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ اب ”مکاری“ ملاحظہ کیجئے۔ بھارتی لابی دنیا بھر میں انہیں سزا دلوانے کیلئے سرگرم تھی اور وہ عالمی اداروں کو بھی استعمال کر رہی تھی۔ نواز شریف کی حکومت اس دباﺅ کا مقابلہ حکمت سے کر رہی تھی، وہ انہیں سزا دلوانے سے گریز کر رہی تھی اور معاملہ محض حفاظتی نظربندی کے ذریعے ٹال رہی تھی۔ بھارتی لابی نے 2017 ءمیں ”پانامہ لیکس“ کر ڈالا، ایک طوفان برپا ہوا۔ اشرافیہ نے جماعت الدعوة کو مجبور کیا کہ وہ عمران خان کیلئے سہولت کاری کرے ۔ عمران آ کر ان کی نظر بندی ختم کر دے گا۔ اور بھی بہت کچھ دباﺅ کے ہتھکنڈے اختیار کئے گئے جو ناقابل اشاعت ہیں۔ عمران حکومت نے آتے ہی جو کام ترجیحی بنیاد پر کئے ان میں یہ بھی شامل تھا کہ حافظ سعید، حافظ مکی اور حافظ عبدالسلام کو طویل قید کی سزائیں سنوا ڈالیںاور جماعت الدعوة پر ایسی پابندی لگائی کہ اس کا وسیع و عریض اور بے مثال سماجی خدمات کا ادارہ بھی ملیامیٹ کر ڈالا جس نے زلزلے سیلاب سمیت دوسری آفات کے دوران پوری ریاست جتنا کام کیا تھا اور دسیوں ہزار یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں کیا تھا۔ ”لنگر خانوں“ کا ناٹک رچانے والی یہ حکومت تو ختم ہوئی لیکن اس کی لگائی گئی پابندی اور سزائیں برقرار ہیں۔ مفتی صاحب ایک کھلا خط اس پر بھی لکھ ڈالیں۔