سیاست سے اخلاقیات کا مرحلہ وار خاتمہ ہوتے ہوتے اب یہ وقت آگیا ہے کہ خود کو سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ کہلانے والا شخص کبھی اپنی ہی جماعت کے سینئر بزرگ رہنما¶ں کی گرفتاری پر پولیس پر نازیبا حرکات اور زیادتی کا الزام لگاتا ہے جس سے یقینی طور پر ان سینئر رہنما¶ں کے لئے اپنے خاندان اور حلقہ احباب میں لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہوگا حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ملک کے بدترین ادوار میں کبھی بھی سیاسی اختلافات کو اس نہج تک نہیں لے جایا گیا چاہے وہ بدترین مارشل لا ءادوار ہی کیوں نہ ہوں۔ اب اپنی پارٹی کی گرفتار خواتین کارکنوں اور ہنما¶ں کے بارے میں اس طرح کا بیان دینے سے دراصل ان گرفتار کارکنوں کے لئے لوگوں کا سامنا کرنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ آپ خود بھی تو پولیس کی حراست میں رہے ہیں‘ اپنے بارے میں اس طرح کی بات کیوں نہیں کی؟ اگر عام کارکنوں کے بارے میں اس طرح کے بیانات دینے سے آپ کی زبان نہیں لڑکھڑائی اور آپ کی کامیاب حکمت عملی میں ایسا کرنا ضروری ہے تو اپنے بارے میں بھی ایسے ہی انکشافات کریں جس سے یقیناً آپ کے لئے سیاسی ہمدردی میں اضافہ ہوگا!!
سیاست میں بداخلاقی کا آغاز اس وقت ہوا جب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا۔ اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں ناگوار باتیں کی گئیں۔ پھر بھٹو دور میں مخالف سیاسی خواتین پر سرکاری فورسز کے ذریعے تشدد کیا گیا۔ یہ سلسلہ بڑھا اور پھر ضیاءالحق کے دور حکومت میں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید پر پولیس تشدد کیاگیا اور ان کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کی خواتین پر تشدد ہوتا رہا لیکن بدفعلی جیسے الزامات کا کوئی تصور نہیں تھا۔ خواتین پر تشدد بھی قابل مذمت ہے اور ان کے خلاف غلط زبان کا استعمال تو قومی سیاسی کلچر کا جنازہ نکال دینے کے مترادف ہے۔ ضیاءالحق دور میں بھٹو فیملی کی خواتین کے خلاف گھٹیا قسم کی مہم چلائی گئی۔
جنرل ضیاءالحق کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے باری باری اقتدار میں بھی گھٹیا مہم اور الزام تراشی کا سلسلہ چلتا رہا اور خواتین پر تشدد اور ان کی گرفتاریاں ہوتی رہیں لیکن اس وقت تک بھی کہیں پولیس و حراست میں لینے والے اداروں کے خلاف دوران حراست گھٹیا حرکات کا الزام عائدنہیں کیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا اور جنرل پرویز مشرف نے نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کئے جس سے اطلاعات تک عام آدمی کی رسائی آسان ترین ہوتی چلی گئی۔ سوشل میڈیا کے بے ہنگم فروغ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کی نمائندگی کا دعوی کرنے والی جماعت تحریک انصاف نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی جماعت کے سوشل میڈیا سیل کے ذریعے اپنی پارٹی کو ملک بھر میں توانا کیا۔ اپنی پارٹی کو سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ دینا کوئی جرم نہیں لیکن اس فروغ کی آڑ میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بدترین غیر اخلاقی الزامات عائد کرکے اسے عام نوجوانوں کے ذہنوں میں نقش کرنے کی کوشش کی گئی۔
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف مہم تو جائز ہے لیکن کرپشن اور لوٹ مار کا الزام لگاکر آپ کسی کی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال نہیں کرسکتے لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا کے فروغ سے اسی کلچر کو رواج ملا ہے۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم غیر اخلاقی‘ بدتہذیب مواد سے بھرے پڑے ہیں اور نوجوانوں کو گالم گلوچ اور گھٹیا زبان سکھاکر یہ تاثر دیا گیا کہ ہماری قوم اب جاگ چکی ہے اور یہ اپنے حقوق کے لئے کھڑی ہوگئی ہے۔
سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ایک طرف نوجوانوں کو غیر اخلاقی اور گھٹیا سیاسی زبان کا عادی بنادیا گیا تو اسی دوران ملکی سلامتی و دفاع کے ذمہ دار اداروں کے خلاف گھٹیا اور غداری پر مبنی مہم کا آغاز کیا گیا۔ 2018ءکے انتخابات اپنی جگہ خود متنازع تھے‘ پھر جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جس طرح اراکین اسمبلی کو جمع کرکے قومی و صوبائی حکومتیں بنائی گئیں۔ جب آپ کی ضد اور انا کی سیاست جان کر آپ کے اتحادی آپ سے متنفر ہوگئے اور ان اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھاکر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی تو وہ حرام قرار پائی اور پھر اس سیاسی و جمہوری عمل میں رکاوٹ نہ بننے کی وجہ سے جنرل باجوہ کا ٹرائل شروع کردیا گیا جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی گئی اور پھر پاکستان کی تاریخ کا شرمناک ترین دن 9مئی آگیا جب محب وطن قوم کے چند لوگوں کو اپنی سلامتی و خودمختاری کے ضامن اداروں کے خلاف برسرپیکار کردیا گیا اور سنگین غداری پر بھی مختلف تاویلیں دی جاتی رہیں۔
عمران خان کی جماعت کے کئی لوگوںنے بہت مال بنایا ہے لیکن ان کا ٹرائل کرنا حرام ہے کیونکہ وہ نیا پاکستان بنارہے تھے۔
بہرحال سیاست میں اس وقت جس قدر گھٹیا اخلاقی قدریں رائج ہوچکی ہیں‘ پہلے کبھی نہیں تھیں۔ خود کو قومی لیڈر قرار دینے والے کے بیانات ملک کی سیاست کا دیوالیہ پن ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ خدارا۔ ہوش کے ناخن لیں اور نوجوانوں کو اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کا شکار نہ کریں بلکہ مہذب سیاست کریں۔