عظیم مسلمان برادر ملک ترکیہ میں صدارتی انتخاب کے دوسرے اور فائنل راو¿نڈ میں حسب توقع صدر رجب طیب اردوان پہلے سے بھی زیادہ لیڈ لے کر تیسرا صدارتی الیکشن جیت گئے۔ان کے مدمقابل کمال کیچلیک ان سے 5 فیصد ووٹوں کی کمی سے ہار گئے۔۔مگر دیکھا گیاہے کہ مقابلہ بہت سخت اور کانٹے دار تھا۔۔یاد رہے کہ رجب طیب کے مقابلے میں سیکولر اور اسلام مخالف سیاسی اتحاد کا الائنس تھا۔۔۔اس الائنس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کی اتحادی جماعتوں میں فتح اللہ گولن کی اسلام پسند جماعت کی حمایت بھی شامل تھی۔بلکہ ترکی کے کئی دوستوں کے بقول مخالف اتحاد نے پہلی بار اتناقریبی مارجن اسی لیے حاصل کیا۔یادرہے فتح اللہ گولن ترکی کے جلاوطن معروف مسلمان لیڈر ہیں۔جنہوں نے ترکی سمیت پوری دنیا میں اپنی جماعت کے تعلیمی ادارے بہ کثرت قائم کر رکھے تھے اور انہی اداروں کے نصاب میں یکسانیت کاایشو گولن جماعت اور حکومت کے درمیان اختلافات کا باعث بنا تھا۔2011ءمیں طیب کے پہلے صدارتی الیکشن کے دوران اتفاق سے میں بھی استنبول میں تھا۔ میرے میزبان گھرانے سمیت گولن جماعت کے سارے پیروکار طیب کے پرجوش سپورٹر تھے۔۔۔مگر بعد ازاں جب اختلافات کی وجہ سے دونوں کے راستے جداہوے تو اسوقت یہ گمان کرنا مشکل تھاکہ گولن جماعت کے گہرے اثرورسوخ اور ہر شعبہ زندگی میں بہ کثرت لوگوں کی مخالفت کے باوجود پہلے کی طرح طیب آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے گا۔۔۔۔مگر باشعور ترک قوم نے جذبات سے کام لینے کی بجاے دونوں قومی قیادتوں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے گولن کی متنازعہ مذہبی قیادت کی بجاے طیب اردوان کی سنجیدہ جمہوری ترقی پسند سیاسی اورمذہبی قیادت کے حق میں راے دیکر 2016ءمیں جسطرح پختگی اور قومی ذمہ داری کاثبوت دیا اسی طرح تیسری بارپھراسی حب الوطنی اور اسلام پسندی کاثبوت دیاہے۔قبل ازیں گولن موومنٹ کی طرف سے طیب حکومت کے خلاف ایک خطرناک فوجی سازش بھی عوام نے ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔جس کے نتیجے میں گولن کے ملکی اور بیرون ملک اثاثے بحق سرکار ضبط کرلیے گئے تھے۔
اس انتخاب کے نتائج اس لیے بھی دلچسپ ہورہے تھے کہ طیب اردوان گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں استنبول اور انقرہ جیسے بڑے شہروں میں ہار گئے تھے جو طیب جیسے ہردلعزیز لیڈر کے لیے ایک الارمنگ سیچوایشن تھی۔۔ثانیاً اسی سال ترکی کے جوعلاقے شدید زلزلے سے متاثر ہوے تھے وہاں طیب کے لاکھوں ووٹرز تھے جو بے گھر ہوکر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوچکے تھے۔پھر اپوزیشن اتحادکو غیر ملکی تعاون بھی حاصل تھا۔۔پھر طیب چونکہ کافی عمررسیدہ بھی ہیں اس لئے انہیں صحت کے مسائل بھی رہتے ہیں پچھلے دنوں وہ شدید بیمار ہوے اور مخالفین نے پروپیگنڈہ بھی کیا کہ اب وہ جیت بھی جائیں تو حکومت کے قابل نہیں ہو نگے۔۔بہرحال یہ خطرات طیب کے سر پرمنڈلارہے تھے
ترکیہ کے اس صدارتی انتخاب کی ایک اہمیت یہ بھی تھی اور عالمی میڈیا کی نظروں میں اسکے نتائج نہایت اہم تھے کیونکہ اسی سال ایک صدی قبل کا بدنام زمانہ "معاہدہ لوذان" ختم ہو رہا ہے۔۔۔ترکیہ نے پرانا نام بھی بحال کیاہے اور پرانی پوزیشن بھی بحال کرنے کی تدابیر پر عملی پیشرفت کررہاہے۔۔شاندار اور قابل فخر خلافت عثمانیہ کی وارث ترک قوم سقوط استنبول 1923 کے بعد اب سنبھل رہی ہے۔قومی اور بین الاسلامی سطح پر بطور قوم ترکیہ شاندار کارکردگی دکھا رہا ہے اور اس کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے رجب طیب پرعزم بھی ہے اورعوام کے دلوں کو فتح بھی کر رہا ہے۔ایک کامیاب اور زیرک معمار کی طرح اس نے" ارتغرل غازی " "کورلس عثمان" "سلطان عبدالحمید" جیسی پرجوش تاریخی سیریز کو شاندار طریقے سے فلما کر نئی نسل کو اس کا شاندار ماضی یاد بھی کروادیا ہے اور روشن مستقبل کے لیے اسے تیار بھی کر رہا ہے۔۔تعمیر اور تبدیلی کا یہ سفر اسی صورت ممکن تھا کہ باباے ترکی رجب طیب کی غیرت مند عالمی اسلامی قیادت خود عنان حکومت سنبھال سکتی۔بلاشبہ ملائشیا کے بزرگ معمار معاتیر محمد کی طرح بزرگ ترک رہنما رجب طیب بھی پوری امت کی دعاو¿ں کا مرکز بنے ہوے ہیں۔
ہم بجا طور پر بے امام امت مسلمہ کو اس بطل جلیل باباے انفلاب کی فتح پر پوری پاکستانی قوم کی طرف سے مبارک باد دیتے ہیں۔دنیا کے بیشتر سربراہان مملکت انہیں نیک تمنائیں پہنچارہے ہیں۔اس اہم الیکشن میں ترک مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا کیونکہ انہیں فریق مخالف کے عزائم کو شکست دینا ضروری ہو گیا تھا۔
رجب کی حکومت کو حسب معمول بہت بڑا معاشی چیلنج درپیش ہے۔اب انشاللہ اگلے مرحلے میں 2028 تک انکے تجربہ کار رفقا ترکیہ کو ترقی کی عالمی شاہراہ پرگامزن رکھتے ہوئے عہد عثمانی کی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کریں گے۔۔یورپ امریکہ اور بالخصوص اسرائیل اس کامیابی سے کافی پریشانی میں مبتلاءہوں گے۔پاکستان کے سیاستدانوں اور عسکری عمائدین کو بھی اپنے برادر ملک سے سبق سیکھ کر اپنے شدید ترین بگاڑ کا شکار معاشی،سیاسی اور سماجی معاملات کو بیٹھ کر حل کرلینا چاہیے تاکہ غریب عوام کی اگلی نسلیں سکون کا سانس لے سکیں۔