بریگیڈئیر (ر)صولت رضاکا شمار میرے ان چند دوستوں میں ہوتا ہے جو کبھی لگی لپٹی نہیں رکھتے اور صاف اور کھری بات کہنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا بھی ڈر نہیں ہوتا کہ ان کی یہ صاف گوئی ان کے حق میں جائے گی یا خلاف‘ وہ انجام کی پروا کئے بغیر اسی راستے پر چلتے ہیں اور یہی کھرا پن بالآخر ان کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ انسان عموماً جب اپنے بارے میں کوئی بات کرتا ہے یا کوئی تحریر لکھتا ہے تو اس میں بناوٹ اور تصنع کا تھوڑا بہت لیپ ضرور کرتا ہے ،تاہم صولت رضا نے اپنی خودنوشت ”پیچ و تاب زندگی، لائنز ایریا سے ہلال روڈ تک “ لکھتے وقت اس کے عرض مصنف کی پہلی سطر میں بھی اتنی صاف گوئی سے کام لیا کہ اسے نامکمل خودنوشت لکھ دیا اور ساتھ ہی اس کی وضاحت بھی کر دی ۔انتساب اساتذہ کرام کے نام ہے۔ کتاب ایک سو چوالیس صفحات پر مشتمل ہے جس میں چار صفحات بریگیڈئیر صاحب کی رنگین تصاویر پر مشتمل ہیں جن میں ان کی جوانی کا جھلملاتا شباب بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔پیش لفظ جناب مجیب الرحمن شامی نے ہمیشہ کی طرح خوب لکھا ہے ۔ ” بریگیڈئیر صولت رضا اس لحاظ سے لاکھوں کیا، کروڑوں میں یا یہ کہیے کہ 22کروڑ پاکستانیوں میں ایک ہیں کہ جو پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے اور کچھ عرصہ میدان صحافت میں جوہر دکھانے کے بعد فوج کی محبت میں ایسے مبتلا ہوئے کہ کمشن حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ صولت رضا کی زندگی کی کہانی میں ہماری اجتماعی زندگی کے کئی گوشے بھی سمٹ آئے ہیں ،یوں یہ پوری قوم کی کہانی بن گئی ہے‘ “۔
صولت رضا کی دو کتابیں اس سے قبل بھی سپرہٹ رہی ہیں۔ کاکولیات اور غیرفوجی کالم کے بعد یہ ان کی تیسری قلمی کاوش ہے۔ کتاب کے کل درج ذیل آٹھ ابواب ہیں:رضی کے ابا‘شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی لیفٹینیات‘ کپتانیات‘ میجریات‘ کرنیلیات ‘معرکہ کارگل اورالوادع ہال روڈ۔ رضی کے ابا میں صولت رضا نے اپنی پیدائش‘ بچپن کی یادوں‘سکول کالج کی تعلیم اور اس سے متعلق دلچسپ واقعات کا ہلکے پھلکے انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ درحقیقت کسی بھی بڑے آدمی کے لئے اس کا بچپن بہت یادگار ہوتا ہے ،کیونکہ وہ بڑا بنتا ہی تبھی ہے جب بچپن سے ہی اس میں کچھ ایسی عادتیں راسخ ہو جاتی ہیں جو پوری زندگی اسے مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔صولت رضا لکھتے ہی کہ ان کا گھریلو نام رضی تھا۔ والد صاحب ملٹری انجینئرنگ سروسز کے سول سٹاف میں شامل تھے۔ بچپن کی انمٹ یادوںمیں سرکاری کواٹر کے سامنے سرسبز میدان‘گھنے درخت‘پرندوں کی دن بھر چہچہاہٹ‘شدید بارش اور صبح سویرے گائے کے دودھ کا گلاس پینا شامل تھا۔کہتے ہیں والد صاحب سرکاری کام سے جب بھی ڈھاکہ جاتے تو واپسی پر ہمارے لئے گلاب جامن ضرور لاتے۔ گریجوایشن کے بعد ایم اے میں داخلے کا مرحلہ آیا تو صولت رضا کی دلچسپی وکالت اور صحافت کی جانب تھی۔ لکھتے ہیں کہ وکالت سے پسندیدگی کا سبب قائد اعظم محمد علی جناح کی مثالی شخصیت تھی۔اخبار روزانہ آتا ۔نوائے وقت بذریعہ ڈاک لاہور سے منگوایا کرتے تھے۔شعبہ صحافت میں تحریری امتحان کے بعد انٹرویو ہوا ۔ پینل میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے ساتھ مسکین حجازی‘وارث میر‘مہدی حسن اور محی الدین تشریف فرما تھے۔ شعبہ صحافت کے عملی میدان میں قدم رکھا تو مصنف نے مختلف اخبارات میں کام کیا جس کی تفصیل اور اس سے متعلقہ دلچسپ واقعات کتاب میں پڑھے جا سکتے ہیں۔کاکولیات میں ،کتاب کی اشاعت کیونکر ہوئی ،اس پر بھی سیرحاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔کاکولیات پی ایم اے کے شب و روز پر مشتمل باب ہے اور اس کتاب کے اکتیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔صولت رضا نے جرنلزم میں ماسٹر کیا لیکن بعد ازاں فوج میں کمشن کے لئے بھی اپلائی کر دیا اور سیکنڈ لیفٹننٹ بھرتی ہو گئے۔اگلا باب لیفٹینیات ہے جس میں مصنف کے آئی ایس پی آر سے بطور پی آر او منسلک ہونے کی دلچسپ کہانی بیان کی گئی ہے۔مزاح کی کاٹ صولت رضا کی تحریروں کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ پی آر او کے لئے درخواست دیتے وقت جو مشکلات پیش آئیں، انہیں شائستہ انداز میں بیان کیا گیا ہے ،جیسا کہ لکھتے ہیں پی آر او کی درخواست میں کچھ ہلکی پھلکی غلطی ہو گئی ،جس پر ایک انسٹرکٹر نے ان کی یہ کہہ کر خاطر تواضع کی کہ ”یہ آئی ایس پی آر میں پی آر او بھرتی ہونا چاہتا ہے ‘ بھرتی سے پہلے ہم بھرتہ بنائیں گے“۔ آئی ایس پی آر میں کوریج کے دوران کے روز و شب کو واقعات کی صورت میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس دوران مصنف کو مختلف کورسز اور ٹریننگز سے بھی گزرنا پڑا جو فوج کے سسٹم میں چلتی رہتی ہیں‘ ان کی تفصیل بھی مصنف نے بیان کر دی ہے۔اگلا باب کپتانیات کا ہے۔ مصنف کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی مل گئی اور ا س کے ساتھ ہی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔کوئٹہ تعیناتی ہوئی اور و ہاں آئی ایس پی آر کا مستقل آفس بھی قائم کرنا تھا۔
مصنف نے ویسے تو بہت سے دلچسپ واقعات لکھے ہیں لیکن ایک اور واقعہ جو مصنف کے ذہن سے محو نہ ہو سکا، وہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیاءالحق کے مابین کوئٹہ کے ایک آفیسرز میس میں دلچسپ مکالمہ تھا۔ بھٹو صاحب بلوچستان کے دورے پر تھے۔ آرمی چیف جنرل محمد ضیاءالحق اور چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل عبداللہ ملک بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میس میں لنچ تھا جس میں گیریژن کے کچھ اور افسر بھی مدعو تھے۔ بھٹو صاحب اپنے مخصوص انداز میں تشریف لائے۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل (ر) ٹکا خان بھی ہمراہ تھے۔ ابھی لنچ کی باضابطہ کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی۔ جو ان افسر بھٹو صاحب کے گردگھیرا ڈالے ان کی قادر الکلامی سے مستفید ہورہے تھے۔ بھٹو صاحب کے آبدار نے ”مشروب مغرب“ سے بھر اگلاس ان کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے ارد گرد دیکھا، ہر طرف خاموشی تھی۔ کسی نے آواز لگائی کہ آرمی میس میں '' نوش جاںکرنے پرپابندی ہے۔“ کس نے لگائی ہے؟ بھٹو صاحب کی گرج سنائی دی۔ و یئر از ضیائ؟'' (ضیاءکہاں ہے؟ جنرل محمد ضیاءالحق کچھ فاصلے پر مہمانوں کے ساتھ مصروف گفتگو تھے۔ انہیں اطلاع دی گئی کہ وزیر اعظم یا د فرمارہے ہیں۔ وہ فوراً حاضر ہو گئے۔ '' جی سر'' بھٹو صاحب نے پابندی کے بارے میں دریافت کیا تو بولے کہ آرمی میس میں ”نوش جاں “ پر پابندی جنرل ٹکاخان کے دور سے ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنا گلاس لہراتے ہوئے کہا کہ ”میں تو پی رہا ہوں۔ اس موقع پر جنرل ضیاءالحق نے وزیر اعظم کو تاریخی جملہ کہا: Sir, you are above the law (جناب آپ قانون سے بالاتر ہیں) یہ جملہ سن کر بھٹو صاحب پھولے نہیں سما رہے تھے، سب نے قہقہہ لگایا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
بریگیڈئیر(ر) صولت رضا کو آئی ایس پی آر میں جنرل ٹکا خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک تمام فوجی سربراہوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے نمل یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی بنیاد رکھی، یہاں سے رخصت ہوئے تو ایک نجی ٹی وی چینل کے افسر اعلیٰ مقرر ہو گئے۔ مجیب الرحمن شامی کے مطابق صولت رضا کو فوج سے تو ریٹائرمنٹ مل گئی لیکن قلم سے تعلق برقرار ہے۔ شامی صاحب نے انہیں دنیائے ادب وصحافت کا فیلڈ مارشل قرار دیا ہے۔ یقینا ان کی خودنوشت ”پیچ و تاب زندگی، لائنز ایریا سے ہلال روڈ تک “ ان کی دیگر تصنیفات کی طرح فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کرے گی۔
”پیچ و تابِ زندگی“
Jun 01, 2023