قومی افق … فیصل ادریس بٹ
……………
بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو جہاں ایک طرف طویل عرصے بعد بلوچستان میں قومی کھیلوں کے شاندار انعقاد پر مبارک بادیں وصول کر رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ حلقوں کی جانب سے اپنی حکومت پر پڑنے والی نادیدہ دباؤ کی مزاحمت کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت جب آنے والے انتخابات قریب ہیں صوبے میں ایک بار پھر سیاسی اتھل پتھل سے وہ کونسی قوتیں ہیں جو فائدہ اٹھانے کے چکروں میں ہے۔ اس کا علم خود وزیراعلیٰ بلوچستان کو ہی ہوگا ورنہ بظاہر تو انکی حکومت اس وقت آرام سے چل رہی ہے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے اندرون خانہ ہی خوش اسلوبی سے طے کر لیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کی بھی انہیں بھرپور تائید حاصل ہے۔ مقتدرہ حلقوں سے بھی ان کی کوئی ان بن نہیں صوبے میں سب سے زیادہ مسائل مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں جن پر بہرحال حکومت بلوچستان قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے مگر اس میں صرف ایک صوبے کا کوئی قصور نہیں پورے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دوسری بات دہشت گردی کی وارداتوں کا تسلسل ہے۔ گمراہ شدت پسند عناصر چھپ چھپ کر عسکری تنصیبات پر حملہ کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ کئی فوجی جوان ان سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر تے ہیں جب تک ان مذہبی یا قوم پرست دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے سہولت کاروں اور انہیں تباہ و اسلحہ فراہم کرنے والے وطن دشمن غلام کو قابو نہیں کیا جاتا انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا یہ ناسور یونہی بہتا رہے گا۔ اس پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صوبے کی ترقی کے لئے مہنگائی اور دہشت گردی پر قابو پانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قومی کھیلوں کے انعقاد سے کم از کم بلوچستان کا پُرامن چہرہ ایک بار پھر لوگوں کے سامنے آیا ہے جو بلوچستان جانے سے گھبراتے تھے۔ اب وہ خوش دلی سے ایک بار پھر سیر و سیاحت کے لئے کاروبار کے لئے بلوچستان کا رُخ کر سکتے ہیں جس سے صوبے میں معاشی حالات بہتر ہونگے۔
کراچی تا کوئٹہ چمن جو بین الاقوامی شاہراہ ہے اسے بجا طور پر ’’موت کی سڑک‘ یا خونی شاہراہ‘‘ کہا جاتا ہے عرصہ ہوا اسے ڈبل کرنے کا کام شروع ہوا مگر ابھی تک یہ مکمل نہ ہو سکا جو کام ہوا بھی ہے وہ ناقص ہے سڑک بنتے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ معروف شاہراہ ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں مسافر گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس سڑک کو اگر ایمانداری سے مکران کراچی کوسٹل شاہراہ کی طرز پر تعمیر کیا جائے یا موٹروے طرز پہ ہی تعمیر کیا جائے تو ہر سال یہاں حادثات میں سینکڑوں کی تعداد میں مرنے والوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔ جدید گاڑیوں میں سفر تب ہی محفوظ ہوتا ہے جب سڑکیں بہترین ہوں ورنہ یہی گاڑیاں اور ان میں سفر کرنے والے مسافر آئے روز حادثات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اس سڑک کی تعمیر سے حکومت کو بھی مالی فائدہ ہوگا اس پر بہتر کام تیز رفتاری سے کرا کر حکومت نیک نامی مول سکتی ہے۔
اس وقت ملک میں تحریک انصاف کے سینئر جونیئر ارکان مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کر رہے ہیں عوام اور اپنے لیڈر عمران خان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ جیل میں سخت زیادتی ہوئی ہے حالانکہ حالات بالکل اُلٹ ہیں۔ پارٹی سے جانے والے تمام لوگ میاں مٹھو ہیں جہاں سے چوری ملتی ہے وہاں کے لئے اُڑان بھر لیتے ہیں اور جو کسی بھی پارٹی کے متوقع اقتدار کو بھانپ لیتے ہیں اور پچھلی پارٹی چھوڑ کر نئی پارٹی میں شمولیت کے لئے ہاتھ میں کشکول لئے انتظار میں رہتے ہیں کہ کسی پارٹی سے کشکول میں خیر پڑ جائے۔ ملک کو ایک زہریلے پراپیگنڈے کا سامنا ہے کہ جیل میں کسی سیاسی کارکن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ پنجاب میں جیلوں کی سکیورٹی پر سوال اٹھانا انتہائی مشکل کام ہے۔ جیل انتظامیہ نے نہ صرف فول پروف سکیورٹی تشکیل دے رکھی ہے بلکہ سپرنٹنڈنٹ جیل سے لے کر وارڈن اور ایک ایک حوالاتی و قیدی کی نقل و حرکت کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کی جاتی ہے۔ جیلوں میں سپرنٹنڈنٹ کے کوڈ آف کنڈکٹ کا مانیٹرنگ افسر ڈی آئی جی اور اُس کا مانیٹرنگ آفسر آئی جی ہے۔ جیل میں خاتون سیاسی کارکن سے ریپ کا جو ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اُس میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں ہے یہ صرف مخصوص گروہ کی طرف سے ملک کی ساکھ اور بدنامی کے لئے کیا جارہا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی واضح طور پر اس من گھڑت واقع کی ٹھوس انکوائری بھی کروا چکے ہیں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اپنی سینئر پولیس آفیسرز کی لیڈیز ٹیم جیل میں بھی بھیج کر انکوائری کروا چکے ہیں۔ پولیس ٹیم نے جیل میں قید تمام خواتین جن کی تعداد ڈیڑھ سو ہے جو مختلف جرائم میں بند ہیں، سے علیحدہ علیحدہ انکوائری کی جس میں اس واقع کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے واقع کی اطلاع ملتے ہی اپنی ٹیم کے ہمراہ سرپرائز وزٹ کیا انہیں بھی کسی قسم کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی رپورٹ وہ محکمہ داخلہ کو بھجوا چکے ہیں۔ میاں فاروق نذیر کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں ہماری مانیٹرنگ اس قدر سخت ہے کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر کہتے ہیں کہ اس بے ہودہ پراپیگنڈے کا جیل انتظامیہ آئی جی پنجاب پولیس، سپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو اور مختلف حساس اداروں کو نام و نشان تک نہیں مل سکا۔ یہ صرف ملک کی ساکھ کو خراب کرنے کے لئے الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی فریق اس پراپیگنڈے کی انکوائری پاکستانی ایجنسز کے علاوہ سکاٹ لینڈ یارڈ سے کروانا چاہتا ہے تو اُس کے لئے بھی حاضر ہیں۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس انتہائی پروفیشنل اور منجھی ہوئی ہے کہ ایک مخصوص پارٹی کی طرف سے پنجاب پولیس پر من گھڑت الزامات عائد کئے جا رہے ہیں تمام الزامات کی انکوائری بھی ہو چکی ہے جس میں کچھ نہیں ملا اب مخصوص پارٹی کو الزامات چھوڑ کر ہوش کے ناخن لینے چاہئے۔