جشن کوئٹہ اور مہدی حسن کی یادیں

 ارتقاءنامہ …سید ارتقاء احمد زیدی
irtiqa.z@gmail.com

یہ 1964ءکا واقعہ ہے۔ ان دنوں ہر سال کوئٹہ میں رنگا رنگ تقریب ہوتی تھی جو ایک ہفتہ جاری رہتی تھی۔ اس میں پورے ملک سے خاص طور پر کراچی اور سندھ کے د±ور دَراز علاقوں سے لوگ اس تقریب میں شرکت کے لیے آتے تھے۔ اس تقریب کو جشن کوئٹہ کہا جاتا تھا۔ اس دفعہ جشن کوئٹہ میں ایک محفل موسیقی کا اہتمام کیا تھا اور ملک کے نامور گلو کاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ میں ان دنوں ٹنڈو جام زرعی کالج میں زیر ِتعلیم تھا اور تین ہفتے کی چھٹیوں میں جو کہ ہر سمسٹر کے بعد ہوتی تھیں، کوئٹہ آیا ہوا تھا۔ شجاع بھائی جو اس وقت بلوچستان کے تعلقات عامہ میں ملازم تھے۔ مجھے اپنے ساتھ اس محفل موسیقی میں لے گئے۔ سامعین میں بڑی تعداد گورنمنٹ کالج کوئٹہ کے طالب علموں کی تھی۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے لے کیا تھا کہ کسی بھی گلو کار کو بخشا نہیں جائے گا اور کھل کر ہوٹنگ کی جائے گی۔ اس شرارت کا انہوں نے کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔ سب سے پہلے کراچی کے ایک ا±بھرتے ہوئے گلو کارکو اسٹیج پر مدعو کیا گیا اور لمبا چوڑا تعارف کرا کر ان سے غزل کا آغاز کرنے کو کہا گیا۔ اچھی بھلی آواز تھی اس نوجوان کی اور گانا بھی اچھا تھا لیکن کالج کے لڑکوں نے بہت ہوٹنگ کی۔ جیسے تیسے اس گلو کار نے اپنا گانا ختم کیا۔ دوسرے اور تیسرے گلو کار سے بھی یہی سلوک کیا گیا۔ تقریب کے منتظمین نے وقفے کا اعلان کر دیا اور سر جوڑ کے بیٹھے کہ ہوٹنگ کرنے والوں کو کس طرح روکا جائے۔ طے پایا کہ کالج کے لڑکوں سے بات چیت کی جائے کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ پچھلے سالوں میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ لڑکوں نے کہا کہ وہ ایسا اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک کوئی ایسا گلو کار نہیں آجا تا جو اپنی آواز کا صحیح معنوں میںجادو جگا کر ان کے دل نہ جیت لے۔ 
منتظمین نے کافی صلاح مشورے کے بعد کراچی سے آئے ہوئے ایک بالکل نئے گلوکار مہدی حسن کو اسٹیج پر بھیجنے کا مشورہ دیا۔ مہدی حسن گلو کاری میں بالکل نو وارد تھے۔ ان کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ انہوں نے بہت احتجاج کیا کہ جب کہ اب تک تمام گلو کاروں کی ہوٹنگ ہو چکی ہے تو انہیں قربانی کا بکرا کیوں بنایا جارہا ہے؟ ان کا خیال تھا کہ وہ اس ماحول میں غزل پیش کریں گے تو ان کا حشر بھی اس سے پہلے آنے والے گلو کاروں جیسا ہی ہو گا۔ انہیں بڑی ہمت دلائی گئی اور منت سماجت کر کے اسٹیج پر بھیج دیا گیا۔ انہوں نے آواز کا جادو جگایا:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے
غزل شروع کی، یک دم سامعین پر جیسے سکتہ چھا گیا۔ وہ دم بخود غزل سن رہے تھے اور جھوم رہے تھے۔ غزل کے اختتام پر انہوں نے بے حد تالیاں بجائیں اور مہدی حسن کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ یہ شام مہدی حسن کی زندگی میں ایک یاد گار شام بن گئی۔ اس غزل کے بعد انہوں نے بے پناہ شہرت پائی۔ 1965ئ کی جنگ میں انہوں نے قومی ترانے گا کر پاکستان کی افواج کا لہو گرما دیا۔ ان کو پہلا قومی ایوارڈ بھی 1965ءمیں گائے جانے والے ترانوں پر ملا۔ اس کے بعد کئی ایوارڈ ز دیے گئے۔ مہدی حسن اپنی زندگی میں جشن کوئٹہ میں ہونے والے اس یاد گار واقعے کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر میں بھی اس شام ہوٹنگ کا شکار ہو جاتا تو شاید دل برداشتہ ہو کرگلو کاری ہی چھوڑ دیتا لیکن میری محنت کام آئی کہ کالج کے لڑکوں نے میرے گانے سے محفوظ ہو کر بہت داد دی جو میرے لیے آج بھی ایک سرمایہ ہے!!

ای پیپر دی نیشن