چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
پاکستان پیپلز پارٹی واحد قومی جماعت ہے جو ابھی تک پورے ملک میں اپنی بہترین سیاست اور طرز عمل سے جانی جاتی ہے۔ ایک اعتدال پسند جماعت کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو بھی ساتھ لیکر چلتی ہے اور اگر کوئی تنازع پیدا ہو جائے تو اسے حل کرنے کے لیے میز کا سہارہ لیتی ہے نہ کہ لڑائی جھگڑے کا۔ پاکستان پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست کے حوالے سے اپنی تاریخ رکھتی ہے جبکہ ملک کی تعمیر و ترقی قانون سازی اور عوامی مسائل کے حوالے سے اس کی تاریخ بھی شاندار ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک کم نہیں ہو ا بلکہ بڑھا ہے اس کے ساتھ ہی ملکی صدارت سے لیکر دوصوبوں کی گورنری،چیئر مین سینٹ کے سندھ میں حکومت کے علاوہ کئی قابل زکر عہدے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہیں۔ قانون سازی میں سینٹ اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے اس کے چیئر مین جناب سید یوسف رضا گیلانی ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بلاول ہاو¿ س میں ملاقات کی جس میں ملک کی مجموعی صورت حال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ پارٹی کو پنجاب میں فعال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ سید یوسف رضا گیلانی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہنے کے بعد اب سینٹ کے چیئرمین بھی بن گئے ہیں اور تینوں مناصب پر فائز ہونے والی وہ کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت سے پاکستان کی پہلی شخصیت ہیں، یوسف رضا گیلانی سرائیکی علاقے سے منتخب ہونے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بھی تھے جن کی وزارت عظمیٰ کا دورانیہ سب سے طویل چار سال ایک ماہ اور ایک دن تھا اگر اس وقت ان کے خلاف سازش نہ ہوتی تو اپنی پانچ سالہ مدت بھی پوری کرتے۔
سید یوسف رضا گیلانی نے 1976ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔اپنی عملی سیاست کا آغاز 1978ءمیں اس وقت کیا جب انہیں مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن چنا گیا اور 1982ءمیں وہ وفاقی کونسل کے رکن بن گئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے 1983ء میں ضلع کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کو شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوئے۔ 1985ء میں انہوں نے اس وقت کے فوجی حکمران ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا اور وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیرِ ہاو¿سنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے بنائے گئے۔ 1988ء میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی بھی حاصل کی ان انتخابات میں کامیابی کے بعد سید یوسف رضا گیلانی ایک مرتبہ پھر وفاقی کابینہ کے رکن بنے اور اس مرتبہ انہیں بینظیر بھٹو کی کابینہ میں سیاحت اور ہاو¿سنگ و تعمیرات کی وزارت ملی۔
آپ 5مرتبہ رکن قومی اسمبلی بھی رہے,1988 میں آپ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے مدمقابل میاں نواز شریف کو شکست دی جو ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر امیدوار تھے۔وزیراعظم کی حیثیت میں 2012 میں انہیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کیلئے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں چند سیکنڈز کی سزا سنائی اور وہ پانچ سال کیلئے نااہل ہوگئے۔
2024ءکے قومی انتخابات میں ملتان سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد سینیٹر شپ سے استعفیٰ دے دیا اور بطور ممبر پارلیمنٹ حلف اٹھایا۔سید یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ کے ضمنی انتخابات میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہو کر ممبر پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا اور بطور چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔اپنے طویل سیاسی سفرکے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے اپنا نیا سیاسی سفر ایوانِ بالا سے شروع کیا، اپنے اس نئے سیاسی سفر کے آغاز پر ہی وہ بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے جو یقینا ان کے لئے بھی ایک اعزاز ہے۔سید یوسف رضا گیلانی جونہی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے ایوان پہلی بار چاروں صوبوں کی نشانی۔۔۔ سید یوسف رضا گیلانی کے زور دار نعروں سے گونج اٹھا اور اس کے ساتھ جئے بھٹو، بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے نعرے بھی گونجتے رہے۔
سید یوسف رضا گیلانی 9 جون 1952ءکو جنوبی پنجاب کے ایک جاگیردار پیر گھرانے میں پیدا ہوئے جو گذشتہ کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ملتان کی درگاہ حضرت موسٰی پاک کا گدی نشین ہونے کی بناء پر ان کا خاندان مریدین اور روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ان کے دادا سید غلام مصطفی رضا شاہ گیلانی کا شمار تحریک ِپاکستان کے رہنماو¿ں میں ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کبھی کسی انتخاب میں شکست نہیں کھائی۔ان کے والد ِمحترم سید علمدار حسین گیلانی اور معروف سیاستدان حامد رضا گیلانی ان کے رشتے کے چچا تھے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی مسلم لیگ فنکشنل کے سابق سربراہ اور ساتویں پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ دوئم سے بھی رشتے داری ہے جن کی پوتی یوسف رضا گیلانی کی بہو ہیں۔
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ان کے سیاسی کریئر کے دوران سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں نیب نے ریفرنس دائر کیا اور راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے ستمبر 2004ءمیں انہیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 300 ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔تاہم 2006ءمیں یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر رہائی مل گئی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اڈیالہ جیل میں اسیری کے دوران اپنی یادداشتوں پر مبنی پر ایک کتاب ''چاہِ یوسف سے صدا'' بھی لکھی سے ایک بہترین کتاب کا درجہ حاصل ہے۔
یوسف رضا گیلانی جب 2012 میں بطور وزیر اعظم سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے تو سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ ان کا سیاسی کریئر مزید آگے نہیں بڑھ سکے گا لیکن قدرت کے اپنے فیصلے ہیں وہ جسے چاہے نواز دے اور پھر آسمان نے ایک بار پھر دیکھا کہ 12 برس بعد وہ ملک کی ایسی پہلی سیاسی شخصیت بن گئے ہیں جو اپنے کریئر میں ملک کے وزیراعظم، قومی اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین جیسے تین بڑے عہدوں پر فائز رہی ہو۔
مرزا رضابرق لکھنوئی نے برسوں پہلے کہا تھا کہ
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے