حدیث جہاں تمام علوم کی آبیاری کرتی ہے وہاں علم تصوف کے شائقین، قارئین اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے علم حدیث مشعل راہ ہے۔ علم تصوف سے تعلق رکھنے والے حضرات میں ایک خاص قسم کا روحانی میلان ہوتا ہے جو کبھی کبھی وارفتگی اور شدت بھی اختیار کر جاتا ہے۔ مثلاً کبھی یوں ہوتا ہے کہ عبادت میں، نفلی نمازوں میں، اوراد و وظائف میں انہماک اور شوق اتنا بڑھ جاتا ہے کہ باقی دینی اور دنیوی معاملات متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اس میں عبادات کا کوئی قصور نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا اعتدال یا عدم اعتدال کا معاملہ ہوتا ہے۔ حدیث مبارک کے مطالعہ سے اس کا پہلے ہی مرحلے میں علمی تدارک ہوجاتا ہے اور طبیعت اور مزاج حدیث کی موافقت اپنا لیتے ہیں۔
بطور تبرک کچھ احادیث مبارکہ پیش ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اپنی طرف سے دین میں سختی کرنے والے ہلاک ہوگئے۔” آپ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ (صحیح مسلم۔ ریاض الصالحین)
ایک اور حدیث میں ہے
حضرت انس رضی اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول مسجد میں تشریف لائے تو (دیکھا) کہ ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا:” یہ رسی کیا ہے؟ (یعنی کس مقصد کے لئیے بندھی ہے) لوگوں نے بتلایا کہ یہ (حضرت ام المومینین) زینبرضی اللہ عنہ کی رسی ہے۔ جب وہ (عبادت کرتے کرتے) تھک جاتی ہیں تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتی ہیں (تاکہ سستی دور ہوجائے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسے کھول دو! تم میں سے ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس وقت نماز پڑھے جب وہ فرحت و نشاط محسوس کرے، جب سست ہوجائے (تھک جائے) تو سو جائے“۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہ دائمی عمل کو پسند فرماتے تھے یعنی ایسا عمل جو consistency سے کیا جائے۔ مستقل مزاجی سے کیا جائے، اگرچہ تھوڑا ہو۔
آج کے دور میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ قرآن اور حدیث کے بتائے ہوئے طریقہ سے ہٹ کر بالکل مختلف طریقہ اپنا لیتے ہیں اور خود بھی مشکل اور مصیبت میں پڑجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ اکثر اس کی وجہ قرآن اور حدیث سے لاعلمی ہوتی ہے۔
حضرت سلطان باھو فرماتے ہیں، ”علموں باجھ فقر کماوے، کافر مرے دیوانہ ھ±و“یعنی علم (قرآن اور حدیث) کے علم کے بغیر فقیری اور درویشی اختیار کرنا انسان کو کفر، گمراہی اور پاگل پن کی طرف لے جاتا ہے۔
حدیث کا علم کیسے حاصل کیا جائے؟ سب سے پہلے تو یہ عرض کروں کہ حدیث مبارک کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ الحمداللہ۔ اور انشاللہ ابد تک جاری رہے گا۔ اس میں محدثین کرام اوراس میں حدیث کی خدمت پر مامور تمام مسلمانوں کی جدوجہد شامل ہے۔
مدارس میں تو یہ علم باقاعدگی سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ حدیث مبارک کا شوق رکھتے ہیں تو ابتدائی طور پر چند آسان کتب حدیث کا مطالع فرمائیں۔ ان کو پڑھیں اور غور و فکر کریں۔ حدیث کی آسان کتب آپ کو کسی بھی بک سٹور سے مل جائںیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ علم حدیث بہت اہم اور دقیق علم ہے۔ جہاں اس میں سادگی ہے وہاں اس کے رموز اور گہرائی کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے مناسب ہے کہ آپ کسی شیخ الحدیث یا حدیث کے استاد سے رہنمائی حاصل کریں۔ جس نے خود حدیث کو سیکھا ہو اور اس کے رموز سمجھتا ہو یا ضرورت پڑنے پر کسی اور بڑے عالم کی طرف رہنمائی کر سکے۔
حدیث کی آسان کتب کا مطالع کرنا بہت فائدہ مند ہے۔ ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی “ محاضرات حدیث” مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔ اس کتاب کو بطور تعارف اور introduction پڑھیے۔ اسکے بعد ڈاکٹر محمد عظیم فاروقی نقشبندی مجددی دامت برکاتہ کی”آئیے حدیث سیکھئے“ پڑھیں۔ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اسی طرح امام نووی رحمت اللہ علیہ کی ”ریاض الصالحین“ بہت مقبول اور میری پسندیدہ کتاب ہے۔ ”بلوغ المرام“ اور “مشکات المصابیح“ بہت عمدہ کتب ہیں۔ یاد رہے یہ حدیث کی ثانوی یعنی secondary کتب ہیں۔ حدیث مبارکہ کا بنیادی ذخیرہ اس کی primary کتب ہیں، جو کہ بہت ساری ہیں لیکن ”صحائح ستہ“ کو اہل سنت والجماعت میں بنیادی مانا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حدیث کی کوئی بھی مستند کتاب جو آپ کو پسند آئے وہ پڑھیے جس سے ذوق و شوق بڑھے گا اور انشاللہ آپ باقی بڑی کتب حدیث کا مطالعہ کرتے چلے جائیں گے۔
اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور قرآن مجید اور حدیث مبارک کا علم عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی رفیق عطا فرمائے۔ آمین۔(ختم شد)