شیخ مجیب الرحمن اور عمران خان

تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے پرسنل ٹویٹر اکاو¿نٹ پر ان کا ایک پیغام جاری کیا گیا جس کے مطابق عوام کو کہا گیا کہ وہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کریں تاکہ ان کو علم ہو سکے کہ غدار شیخ مجیب الرحمٰن تھا یا جنرل یحیٰی خان تھا- یہ حوالہ 1970ءکے انتخابات کے سلسلے میں دیا گیا جن کے مطابق مقبول عوامی لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان ہی دو لخت ہو گیا- عمران خان کے پیغام کا مطلب 1970ءکے انتخابات کا 8 فروری 2024ءکے انتخابی نتائج سے موازنہ کرنا تھا - حکومتی جماعتوں نے اس پیغام کو ملک دشمن اور غداری کے مترادف قرار دیا- اطلاعات کے مطابق پنجاب کابینہ نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے- اگر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تو ان کا مذکورہ ٹویٹر پیغام بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے- پاکستان میں سیاسی مخالفین پر غداری کا الزام لگانے کی روایت بہت پرانی ہے- تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے وضاحت کی کہ عمران خان کے ٹویٹر اکاو¿نٹ پر جو پیغام نشر کیا گیا وہ عمران خان کے الفاظ پر مشتمل نہیں تھا بلکہ پیغام شیئر کرنے والے معاون نے ایسے الفاظ استعمال کر دیے جن سے پیغام کا مفہوم ہی تبدیل ہو گیا - 
عمران خان اپنے ٹویٹر اکاو¿نٹ کو خود ہینڈل نہیں کرتے- عمران خان مبہم بیانات جاری کرتے رہتے ہیں جن کی وضاحت تحریک انصاف کے ترجمانوں اور وکیلوں کو کرنی پڑتی ہے-پاکستان کی سیاسی و انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی رہنما اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں جو تاریخ کے سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہوتے- سیاست دان اپنے بیانوں اور دعوو¿ں کی تشریح بیان نہیں کرتے تاکہ وہ ضرورت کے مطابق اپنے بیان کی وضاحت کر سکیں-
 شیخ مجیب الرحمٰن اور عمران خان کے درمیان کوئی تاریخی جغرافیائی سیاسی اور انتخابی مماثلت نہیں ہے- آکسفورڈ پریس نے مجیب الرحمٰن کی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب شائع کی ہے جس کا دیباچہ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد نے تحریر کیا ہے- اس کتاب میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مجیب الرحمٰن 1962ءسے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی خفیہ تحریک چلا رہے تھے- جس کو بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی حمایت حاصل تھی- آکسفورڈ پریس نے جنرل ایوب خان کی ڈائری شائع کی ہے جس میں جنرل ایوب خان نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہے گا - ٹھوس تاریخی شواہد کے مطابق بنگلہ دیش 1970ءکے انتخابات سے پہلے ہی وجود میں آ چکا تھا- 
1970ءکے انتخابات اس المناک کہانی کا صرف ایک باب تھے-جنرل یحییٰ خان اگر 1970ءکے انتخابی نتائج کے مطابق اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو منتقل کر دیتے تو چھ نکات کی روشنی میں مشرقی اور مغربی پاکستان ایک کنفیڈریشن کی صورت میں قائم رہ سکتے تھے- 
جنرل یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کے لالچ میں فوجی آپریشن کرکے پاکستان کو دولخت کر دیا- سقوط ڈھاکہ کے قومی سانحہ کے بعد بھی جنرل یحییٰ خان اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے- انہوں نے اپنا آئین تیار کر کے پریس کو جاری کر دیا تھا- گردش حالات سے مجبور ہو کر جنرل یحیی خان کو اقتدار مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کرنا پڑا -شیخ مجیب الرحمٰن کو افسوس ناک انجام کا سامنا کرنا پڑا - بنگلہ دیش کی فوج کے جرنیلوں نے مجیب الرحمٰن اور ان کے خاندان کو شہید کردیا ان کی ایک بیٹی حسینہ واجد اس وقت گھر پر موجود نہیں تھی لہذا وہ محفوظ رہی- شیخ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش کے واحد مقبول ترین لیڈر تھے-1970ء کے انتخابات میں ان کے سیاسی مخالفین مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں جیت سکے تھے- عوامی لیگ نے 162 میں سے 160 نشستیں حاصل کر لی تھیں-
بلا شبہ عمران خان پاکستان کے مقبول لیڈر ہیں- ان کی شیخ مجیب الرحمٰن سے کوئی مماثلت نہیں ہے- اللہ نہ کرے کہ وہ پاکستان کے لیے ایک اور مجیب الرحمٰن ثابت ہوں- پاکستان کے عمران دوست دانشور 2024ءکے انتخابات کو 1970ءکے انتخابات سے جوڑتے ہیں حالانکہ دونوں زمانوں کے سیاسی معاشی اور عالمی حالات میں بہت فرق ہے-مذکورہ دونوں انتخابات کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 1970ءکے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرکے فاش غلطی کی گئی- اس غلطی سے سبق سیکھنے کی ضرورت تھی -
 2024ءکے انتخابی نتائج کو تبدیل کرکے ایک اور فاش غلطی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی اور معاشی استحکام تشویشناک صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے-خاص طور پر نوجوانوں کے دلوں میں نفرت غصے اور اشتعال کے جذبات بڑھتے چلے جا رہے ہیں-خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھی ہے جس کی وجہ سے دھرتی کے محافظ درجنوں بیٹے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں-آج کا پاکستان سنگین نوعیت کے سیاسی معاشی سماجی اور انتظامی بحران کا شکار ہو چکا ہے- دکھ اور کرب کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی لیڈروں عدلیہ کے ججوں اور فوج کے جرنیلوں کو موجودہ نازک اور حساس صورتحال کا شاید ادراک ہی نہیں ہو رہا- حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز 25 کروڑ عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے ایسا راستہ نکالنے کی کوشش کریں جس سے پاکستان کی سلامتی آزادی اور امن و امان یقینی ہو سکتا ہو-ایک آپشن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز یہ فیصلہ کر لیں کہ جب موجودہ حکومت آدھی ٹرم پوری کر لے گی تو اس کے بعد تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت بنانے کی دعوت دی جائے گی- اس آپشن پر اگر اتفاق رائے ہو جائے تو امریکہ سعودی عرب اور چین سب سٹیک ہولڈرز کو گارنٹی دے سکتے ہیں اور پاکستان موجودہ سنگین مشکلات سے باہر نکل سکتا ہے-
موجودہ حالات میں نئے انتخابات کا آپشن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گا-پاکستان کے وسیع تر قومی اور عوامی مفاد کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو کچھ نہ کچھ قربانی دینا پڑے گی-اگر پاکستان کے سیاست دان اور مقتدر حلقے اپنی اپنی اناو¿ں سے باہر نہ نکلے تو وہ اس عمل سے اس شاخ کو ہی کاٹ رہے ہوں گے جس پر وہ بیٹھے ہوئے ہیں-عمران خان عوامی مقبولیت کی وجہ سے سیاست کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جس کے بارے میں فیض احمد فیض نے کہا تھا-
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں 
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
عمران خان جس مقام پر ہیں اس مقام پر پہنچ کر یا تو وہ ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے یا شہادت کا رتبہ حاصل کر لیں گے- تمام سٹیک ہولڈرز سے التجا ہے کہ پاکستان پر رحم کریں اور اس کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے پائیدار حل نکالیں-

ای پیپر دی نیشن