احسن صدیق
اوورسیزانوسٹرز چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے مالی سال 2024-25کے بجٹ کیلئے مراعات کا خاتمہ، 5ہزار روپے کے نوٹ کے خاتمے، زراعت پر ٹیکس اور ٹیکس بیس کی بورڈنگ کی سفارشات پیش کی ہیں۔ او آئی سی سی آئی نے بجٹ تجاویز میں کہا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو جی ڈی پی کے کم ازکم 15فیصد تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے وسائل کا بڑا حصہ ٹیکس بیس کی توسیع کیلئے مختص کیا جائے۔او آئی سی سی آئی نے ٹیکس نیٹ میں تمام شعبوں کی متناسب شراکت پر زوردیتے ہوئے کہاہے کہ اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ہول سیل /ریٹیل سمیت تمام شعبے جی ڈی پی میں اپنی شراکت کے تناسب سے قومی خزانے میں حصہ ڈالیں ۔
ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر مینوفیکچرززکی سپلائی چین کے ساتھ منسلک ہے لہٰذااس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ مینو فیکچررزاور درآمدکنندگان کس طرح کاروبار کرتے ہیں۔ہول سیل/ریٹیل سیکٹر کی خریداری پرموجودہ ودہولڈنگ انکم ٹیکس کا اطلاق مخصوص کے بجائے تمام شعبوں پر ہونا چاہیے اور اس کی شرح کم ازکم 10فیصد ہونی چاہیے۔جبکہ اس وقت یہ شرح 0.5فیصد سے زائد نہیں۔ مندرجہ بالا ٹیکس ود ہولڈنگ کو مینو فیکچررز اور درآمد کنندگان کی فروخت کی رپورٹنگ کے ذریعے غیر رجسٹرڈ صارفین کی مکمل تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
پہلے مرحلے میں ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو اپنے سیلز ٹیکس ریٹرن اور ودہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹ میں اپنے صارفین کی معلومات (نام و پتہ اور این ٹی این نمبر) فراہم کرنے کا پابند بنانا ہو گا۔ اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انکم ٹیکس اور ان پٹ ٹیکس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جیولرز، پراپرٹی ڈیلرزسمیت۔ ٹائر1 ریٹیلرز میں ایف بی آر پوائنٹ آف سیلزانٹیگریشن پر عمل درآمد 100فیصد یقینی بنائے جوکہ سیلز ٹیکس کے نفاذ کیلئے بہت ضروری ہے۔ او آئی سی سی نے اپنی تجاویز میں کہاہے کہ سب سے پہلے ایف بی آر زرعی اور غیر زرعی جائیداد کی تفصیلات حاصل کرے۔ ایسی پراپرٹیز کے مالکان کی غیر اعلانیہ جائیدادوں اور اسٹیٹس کی نشاندہی کیلئے ٹیکس دہندگان کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ سے مدد لی جائے۔ غیر منقولہ جائیداد(بشمول زرعی اراضی) پر ود ہولڈنگ ٹیکس ہر سال ایف بی آر کی شرح کے 0.5فیصد پر صوبوں کے ذریعے وصول کیا جائے۔اس کے نتیجے میں معیشت کو دستاویزی بنانے کے ساتھ ساتھ غیر اعلانیہ جائیداد کی بھی شناخت ہوگی۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس چھوٹ (4سے 6سال بعد)صرف ان لوگوں کیلئے دستیاب ہونی چاہیے جو بعد میں اس جائیداد کو ڈیکلیئر کریں اوریہ چھوٹ ایک پراپرٹی کیلئے 3سال میں ایک ہی دفعہ کیلئے ہو۔ غیر دستاویزی کاروبار زیادہ تر کیش میں ادائیگی کرتے ہیں۔ قانون میں ترمیم کے ذریعے مالیاتی حد کو عبو کرنے والے کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ نان کارپوریٹ کاروباری اداروں کیلئے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا جائے تاکہ کارپوریٹ سیکٹر کے مقابلے میں نان کارپوریٹ سیکٹر میں کاروبار کرنا مہنگا ہو۔ او آئی سی سی آئی نے زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگانے کی سفارش کی ہے۔جس کیلئے ٹیکس وصولی کے انتظام اوراس کے نفاذمیں بہتری لانا ہو گی۔
اوورسیزانوسٹرز چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے تمام خدمات فراہم کرنے والے اور پروفیشنل افراد بشمول ڈاکٹرز، پرائیویٹ ہسپتال،وکلاء ، پینٹرز، فیشن ڈیزائنرز، پراپرٹی ڈیلرز،انٹیریئر ڈیزائنرز، تعلیمی اداروں،سیلونز وغیرہ کوٹیکس نیٹ میں لانے کی سفارش کی ہے ۔ سروس سیکٹر میں لائسنس کی سالانہ تجدید کیلئے ٹیکس ریٹرن فائلنگ لازمی قرار دی جائے۔ حکومت کو چھوٹے پیمانے پر خدمات فراہم کرنے والوں (پلمبر، کارپینٹر،الیکٹریشن وغیرہ) کو ڈیجیٹل آئی ڈی فراہم کرنی چاہیے۔ او آئی سی سی آئی نے بلڈرز اور کنسٹرکشن ایسوسی ایشن پر ٹیکس کی تجویز دی ہے۔3ہزار مربع فٹ کمرشل بلڈنگ کیلئے بلڈرز پر ٹیکس کی شرح 80روپے فی اسکوائرفٹ ہے۔ اگر 3ہزار مربع فٹ کا فلیٹ 3کروڑ کا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بلڈر کو صرف 0.8فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کارپوریٹ سیکٹر 39تک فیصد ٹیکس اداکررہا ہے اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح 35فیصد تک ہے۔ پنشن سمیت کسی بھی آمدنی کو استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ عام محصولات اور دستاویزات کے اقدامات کیلئے او آئی سی سی آئی نے سفارش کی ہے کہ نان فائلرز سے ہوٹلنگ اور سفری اخراجات کے ودہولڈنگ سمیت جہاز کے ٹکٹوں پر بھی ٹیکس وصول کیاجائے۔
او آئی سی سی آئی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ بینک اکاؤنٹ کھولنے، گاڑی اور پراپرٹی کی خریدوفروخت، غیر ملکی سفر اور کلب کی رکنیت کیلئے نان فائلرزکیلئے این ٹی این لازمی قراردیاجائے۔ نان فائلرزکی طرف سے کیش جمع کرنے یا نکالنے کیلئے ایف بی آر کے الگ ونگ کے ذریعے نگرانی کرنی چاہیے یہ ونگ اسٹیٹ بینک کے ایف ایم یو کے ساتھ رابطے میں رہ کر کام کرے۔اس کے علاوہ نان فائلرزکی آمدنی اور اثاثوں کے بارے میں معلومات کیلئے انکی نگرانی کرنی چاہیے۔
تمام پروفیشنل کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے
Jun 01, 2024