24 کروڑ آبادی میں سے بھاری تعداد محض پیٹ بھر روٹی ہی کھا سکتی ہے

Jun 01, 2024

عترت جعفری
جون کے پہلے ہفتے میں آیندہ مالی سال  25۔ 2024 کا وفاقی بجٹ پیش کرنے  کی تیاریاں عروج پر ہیں ، وزیراعظم  شہباز شریف معاشی صورتحال کے حوالے سے  اکنامک منیجمنٹ ٹیم کے متعدد اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں، بجٹ کے حوالے سے تمام وزارتوں اور بڑے اداروں سے متعلق اقدامات جاری ہیں۔جس میں کرنٹ اخراجات، ترقیاتی پروگرام اور کفائت شعاری کو حتمی شکل دی جا رہی ہے ۔ معروضی حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے پاس ریلف دینے  کی گنجائش بہت محدود ہے ،اور ملک کو اپنی آمدن میں اضافہ کیلئے بھی فیصلہ کرنا ہوں گے،24کروڑ آباد ی جس میں بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بس پیٹ بھر روٹی کھا سکتے ہی کھا سکتے ہیں ،ان کے لئے تعلیم ،صحت ،کی سہولتیں محدود ہیں ،ان کے جینے کی امید صرف اورصرف ریاست ہے ،بی آئی ایس پی کے لئے وسائل بڑھائے مگر ان لوگوں کے لئے اس سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے ، وفاقی بجٹ 18 ٹریلین روپے کے قریب ہوگا، جس میں ملک کے دفاع کرنٹ اخراجات ، پنشن کی ادائیگی قرضوں کی واپسی، ترقیاتی مقاصد کے لئے  وسائل دستیاب کیے جائیں گے،بجٹ کوئی معمولی دستاویز نہیں ہوتی یہ ملک کی سمت کا تعین کرتی ہے، معیشت کا ہر سیکٹر، خواہ زراعت صنعت، سروسز، درامد و برامد، مینوفیکچرنگ  ہو بجٹ پر انحصار کرتا ہے ،، بجٹ کے حساسیت اس قدر ہے کہ مزدور حتی کہ گھریلو خواتین بھی اس کے اعلان کی منتظر ہوتی ہیں، ان کے علم میں ہے کہ بجٹ میں اگر کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس لگے گا، تو ان کی قوت خرید میں کمی آئے گی،یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے پاس مالی طور پر اتنی گنجائش نہیں رہی ہے کہ وہ اپنے عوام کے لیے ریلیف کے اقدامات وسیع پیمانے پر کر سکے، ملک نے حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت معاہدہ کو کامیابی سے مکمل کیا ہے،  جس سے معاشی استحکام کی ایک بنیاد ضرور مل گئی ہے، پاکستان ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کو لینا چاہتا ہے، گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی ایک ٹیم نے دو ہفتے اسلام اباد میں قیام کیا اور پاکستانی حکام کے ساتھ نئے  پروگرام کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت مکمل کی۔مشن کے دورہ پاکستان کی تکمیل پرمشن چیف نتھن پورٹرکی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا  آئی ایم ایف کے وفد کے اس دورے کابنیادی مقصد پاکستان کے اندرونی اقتصادی پروگرام کے منصوبوں اوران منصوبوں کیلئے آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی معاونت پربات چیت کرنا تھا، اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گا، پاکستان کو اپنا آئندہ مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کی طرف سے دیے جانے والے اہداف کی روشنی میں ہی بنانا پڑے گا، آئی ایم ایف سے مذاکرات کی جو   خبرسامنے آئی ہیں، اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ائی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ ایف بی ار کے ریونیو کا ہدف 12 ہزار ارب روپے سے زائد مقرر کیا جائے، یہ ہدف اتنا بڑا ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کے دوران 40 فیصد کی گروتھ کا متقاضی ہوگا۔ اس کے علاوہ بجٹ کے  بنیادی سرپلس کو جی ڈی پی کے ایک فیصد کے مساوی کرنا ہوگا، انرجی سیکٹر میں سخت اصلاحات کرنی ہوگی، بجلی اور گیس کے نرخوں میں لازمی اضافہ کرنا پڑے گا، بجلی کا سرکلر ڈیٹ ہو یا گیس کا ڈیٹ، ان دونوں میں کمی لانا پڑے گی، ایف بی ار کے ریونیو کا ہدف جتنا بڑا ہے اس میں ملک میں ٹیکس  گزاروں پرنئے ٹیکسوں کا نفاذ اور موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ناگزیر ہے۔آئی ایم ایف نے نئے بیل آئوٹ پیکیج کے لیے پاکستان میں فروخت ہونے والی تقریباً تمام اشیا بشمول ادویات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی پیشگی شرط  لگائی ہے ۔ پاکستان سیلز ٹیکس میں چھوٹ واپس لینے کی شرط پر عمل درآمد کرتا ہے تو پاکستان میں فروخت ہونے والی تمام اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا ہو گا، سیلز ٹیکس چھوٹ کی تخمینہ سالانہ لاگت 2.9 کھرب روپے ہے جس میں سے 1.4 کھرب روپے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس چھوٹ کی لاگت ہے۔ تمام پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ہے ۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں مالی سال کا بجٹ تیار کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ صوبہ کے پی کے نے اپنا بجٹ پیش کر دیا ہے، 1700 ارب روپے سے زائد کے اس بجٹ  تو سرپلس دکھایا گیا ہے، واضح رہے کہ ائی ایم ایف کی شرط کے مطابق صوبوں کے تمام بجٹ سرپلس ہونا ضروری ہے، اپنی جگہ یہ سوال موجود رہے گا کہ صوبہ  کے پی کے کا بجٹ سامنے آگیا ہے اس میں جو اہداف صوبے کی حکومت نے مقرر کیے ہیں ان کی مطابقت وفاقی بجٹ کے ساتھ کیسے قائم ہوگی، اب وفاق کو صوبائی بجٹ اہداف کے مطابق اپنی ایڈجسٹمنٹ بھی کرنا ہے ۔
 پائیڈ کی ایک رپورٹ حال ہی میں سامنے آئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ملک میں غربت کی سطح بڑھ کر قریبا 39 فیصد ہو گئی ہے، لاکھوں افراد مزید افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، ، پی ایس ڈی پی1220ارب روپے تک کا ہو سکتا ہے ،نجی شعبہ کو طویل المعیاد  منصوبوں پر اپنا سرمایہ لگانے پر آمادہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس کی کچھ مثالیں سیالکوٹ میں موجود ہیں جہاں نجی شعبہ نے اگے بڑھ کر ترقی میں اپنا حصہ ڈالا، وفاقی حکومت کی یہ کوشش بھی ہے دماغ کے تمام صوبے ترقیاتی  مقاصد میں اپنے حصے کو بڑھائیں، اور جو سبجیکٹ وفاق سے اب صوبوں کو چلے گئے ہیں ان میں اپنی ذمہ داری کو پورا کریں، حکومت کی ایک بہت بڑی مشکل پینشن  کی ادائیگی ہے، ہر گزرتے سال کے ساتھ ساتھ پینشن کی رقوم  میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ اگر  پینشن پر اخراجات کیے جاتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ملک کا سارا بجٹ  پنشن میں دینا پڑے گا، وفاقی بجٹ میں پینشن کے نظام میں اصلاحات کی جائیں گی،مالی سال کے  بجٹ میں  پینشن کے نظام  اور سرکاری ملازمت کے ساتھ منسلک فوائد میں  کچھ تبدیلیاں کی جا رہی، ان  تبدیلیوں  سے نئے ریٹائر ہونے والے سرکاری  ملازم کی ' ٹیک ہوم پینشن ' میں اضافہ ہو جائے گا، ریٹائرمنٹ پر یک مشت ملنے والی رقم میں کمی واقع ہوگی،  وزارت خزانہ  کے پاس پینشن سے منسلک جو اصلاحات زیر غور ہیں اس میں کمیوٹیشن  کی موجودہ شرح کو 35 فیصد سے کم کر کے 25 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اس کے علاوہ فل پینشن کی بحالی کی معیاد 15 برس سے زائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، مرحوم کی بیوہ کے انتقال کے بعد بیٹی کے لیے پینشن کی معیاد 10 سال کرنے کی تجویز ہے،  ۔ملک کے اندر مہنگائی کی لہر میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، عالمی مارکیٹ میں گندم پام آئل اور دوسری زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے،  ملک کے اندر بمپر گندم کی  بڑی فضل ہائی اور اس سلسلے میں گندم کے کاشتکاروں کے ساتھ حکومت کے اداروں نے جو سلوک کیا ہے وہ بہت ہی تشویش ناک ہے، گندم کی فی 40 کلوگرام قیمت 3900 روپے مقرر کی گئی تھی تا ہم کوئی خریدار موجود نہیں ہیں، جس سے گندم کے ریٹ نیچے گئے ہیں اگرچہ اس کا عوام کو فائدہ ہوا ہے، گندم کا سکینڈل بہت بڑا ہے اس کی تحقیقات غیر جانبداری سے ہونا چاہیے، اگر اس طرز عمل کا سدباب نہ کیا گیا تو گندم کی اگلی فصل میں قوم اس بد انتظامی کے نتائج کو بھگت لے گی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔
 امریکہ میں صدارتی الیکشن کی وجہ سے آئندہ چند ماہ میں تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی رہے گی، ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کی بنیاد پر قیمتوں کا تعین ہوا تو اس کا فائدہ عوام کو ہوگا، بجٹ میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے ،اس کے ساتھ ساتھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے جن کی رجسٹریشن کی ایک مہم ملک گیر سطح پر چل رہی ہے، تاجر دوست سکیم میںرجسٹریشن کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق اب تک بھی 20ہزارتاجروں  نے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے، اس کوشش کو کامیاب ہونا چاہیے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ وہ واحد طریقہ ہے جس سے پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان کو کچھ ریلیف ملنے کا امکان ہے، آئندہ مالی  سال کے لیے جتنے بڑے ریونیو کی ہدف کی بات کی جا رہی ہے اگر وہ واقعی ایسا کیا گیا تو اس بات پہ کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس کی زد میں تنخواہ دار طبقہ آئے گا، ان کے لیے نہ صرف ٹیکس کی سلیب میں کمی کی جائے گی بلکہ ٹیکس کی شرح  کو بڑھایا جائے گا، دنیا کے ممالک کا یہ دباؤ بھی ہے کہ پاکستان اپنی درامدات میں آسانیاں پیدا کرے اور اس سلسلے میں رکاوٹوں کو دور کیا جائے، تجارت دو طرفہ اصولوں پر چلتی ہے دنیا   مال منگواتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ ان کا مال پاکستان آئے  ،  چین کی حکومت کے ساتھ کچھ قرضوں کے رول اوور ،سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ بھی قرضوں کے رول اوور کے حوالے سے بات چیت میں  ہوئی ہے، ایس ائی ایف سی کا فورم اس وقت کام کر رہا ہے،  ریکو ڈیک منصوبے میں حکومتی شیئرز کو سعودی عرب کو فروخت کرنے کے معاملے میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب اور یو اے ای سے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری ہونے کی تجاویز فیلڈ میں موجود  ہیں اور امید ہے کہ مالی سال کے دوران یہ ٹھوس شکل اختیار کر لیں گی۔

مزیدخبریں