اسلام آباد (عترت جعفری) آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ ایس ایم ای سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ آئی ایم ایف جس نے پہلے ہی پاکستان کو بتا دیا ہے کہ اس کے حالیہ مشن کے دورہ کے نتائج کی روشنی میں ایک ابتدائی رپورٹ تیار کی جائے گی، اور فنڈ انتظامیہ کی منظوری سے اس کو آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے لایا جائے گا جو مزید ممکنہ پروگرام پر مزید بات چیت کے متعلق فیصلہ کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے جو نئی شرائط پر مبنی دستاویز دی گئی ہے اس میں جی ایس ٹی کا ریٹ 18 سے 19 فیصد کرنے کی تجویز موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ایک پریزینٹیشن میں وزیراعظم نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور ایف بی آر سے کہا تھا کہ متبادل تجاویز تیار کرے۔ بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے زیادہ آمدنی والے طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ شرح کو 30 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ سرکاری ملازمین کے لیے ٹیکس سلیبز کی تعداد بھی سات سے کم کرکے چار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی میں1200ارب روپے کی استثنیات موجود ہے۔ آئی ایم ایف کی تجویز ہے کہ ان میں کم از کم 600ارب روپے کی کٹوتی کی جائے، اس لئے تینوں بڑے ٹیکسوں میں عوام پر بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ تمام زیرو ریٹنگ سے متعلقہ سیلز ٹیکس ایکٹ سے پانچواں شیڈول ختم کرنے اور ما سوائے برآمدات کے دیگر تمام اشیاء کو معیاری شرح جی ایس ٹی میں لانے کی تجویز دی ہے۔ چھٹے شیڈول میں بھی غیر ضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آٹھویں شیڈول کے تحت بھی ٹیکسوں کی رعایتی شرح کو صرف اور صرف غذائی اشیاء اور صحت و تعلیم سے متعلق ضروری اشیاء تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ان اشیاء پر بھی اس شرح کو دس فیصد کے لگ بھگ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔