معاملہ اس وقت عدالت میں ہے۔ دفتر خارجہ نے عدالت سے وقت مانگا ہے تاکہ عدالت کو بتایا جا سکے کہ ریمنڈ سفارتی استثناء کا حقدار ہے یا نہیں۔دفتر خارجہ کی رائے پر عدالت فیصلہ کریگی لیکن ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ایک طرف، حکومت کیلئے اسکے علاوہ اور بہت سے مسائل ہیں جن میں اسکی جان بندھی ہوئی ہے ۔ ملکی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا گرانی (عالمی سطح پر تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی ہے) اگر مشرق وسطیٰ کے حالات میں بہتری کی کوئی صورت نہ ہوئی اور تیس تیس سال سے قائم آمرانہ حکومتوں کیخلاف عوام کے غیض و غضب پر جلد ہی قابو نہ پایا جا سکا تو اندیشہ ہے کہ تیل کی قیمتیں مزیدبڑ ھیں گئیں۔ حکومت کے پاس پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کوئی اور چارہ نظر نہیں آتا اگر ایسا ہوا تو مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کا ایک نیا طوفان کھڑا ہو جائیگا۔ جس کا خمیازہ عوام اور حکومت دونوں کو بھگتنا پڑیگا۔ اگر قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی خفگی کا سامنا ہو گا۔ قرضے کی رقوم کے اجرا میں تعطل کا خدشہ مول لینا پڑیگا جس کے بغیر گزارا نہیں۔
ان سب باتوں کے علاوہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان سیاسی کشا کش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کم نہ ہوتا ہوا جذبہ ایک نہایت مشکل منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ ن لیگ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ حکومت کو ہرطرح سے تگنی کا ناچ نچائے۔ ن لیگ کے قائد نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اپنے فیصلے کے حق میں جو دلائل دیئے ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس بات کی شکایت تھی کہ انکے دیئے گئے دس نکاتی ایجنڈے پرپیپلز پارٹی کی حکومت نے کوئی خاص کام نہیںکیا۔ اسکے علاوہ انتخابات کے بعد سے مختلف موقعوں پہ صدر آصف علی زرداری کی طرف سے کئے گئے وعدے اور انکی خلاف ورزی کی شکایتیں تھیں۔ اس پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات کا جواب بعد میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کی طرف سے دیا گیا۔ رضا ربانی کے ساتھ وزیر قانون بابر اعوان اور پنجاب کابینہ سے نکالے جانیوالے پیپلز پارٹی کے وزراء بھی موجود تھے۔ رضا ربانی نے بڑے دھیمے لیکن مدلل اور پُر اثر انداز میں نواز شریف صاحب کی طرف سے لگائے الزامات کا جواب ایک ایک کر کے دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دس نکاتی ایجنڈے میں سات پہ عمل در آمد ہو چکا تھا اور باقی تین پر عمل درآمد کی تیاری کر لی گئی تھی اور یہ تکمیل کے مختلف مراحل میں تھے۔ دس نکاتی ایجنڈے کی تکمیل میں ن لیگ کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سربراہ اسحاق ڈار نے کسی ایک موقعہ پر بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ وہ ایجنڈے کی تکمیل کی رفتار سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے 2011 انتخابات کا سال ہو۔ یہ بھی درست کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان تین سالوں میں اپنے لئے نیک نامی نہیں کمائی لیکن دوسری طرف ن لیگ کے طرفداروں کی طرف سے’’گڈ گورننس‘‘ کے تمام تر دعوے بھی نقش بر آب ہی ثابت ہوئے ہیں ۔عوام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی کار گزاری دیکھ کراگر ووٹ دیں تو ہو سکتا ہے بر سر اقتدار جماعتوں کو انتخابی نتائج دیکھ کر زیادہ خوشی نہ ہو (ختم شد)