کیا حکومت پاکستان کا کوئی ضمیر نہیں، پاک امریکی تعلقات میں اس وقت بڑا تنائو ہے، دنیا بھر میں امریکی سیاست اور معیشت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اس نے گزشتہ کئی سالوں سے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس جو ایک غیرسرکاری سفیر کی حیثیت میں پاکستان میں غیرقانونی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ اس نے گزشتہ دو سالوں میں پاکستان کا تقریباً دس مرتبہ چکر لگایا۔ وہ پشاور کے امریکی سفارتکانہ میں پسندیدہ شخصیت کے طور پر نمایاں ہوا۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہمارے کسی بھی ادارے نے اس سلسلہ میں مشاورت نہیں کی۔ امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہمارا بگ باس اور حلیف ہے وہ صوبہ سرحد کے سیاسی اور معاشی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ اس نے وہاں کی قابض سیاسی جماعت کو مشاورت دی۔ پھر یو ایس ایڈ کے زیرسایہ مالی مدد کی اور اپنے مقاصد کے لیے سیاسی جماعتوں کو استعمال کیا۔ اس سے پہلے سابق صدر جنرل مشرف کے زمانہ میں فوج کی مدد سے اس نے صوبہ خیبر پی کے میں عوام کی آواز دبانے کیلئے پاکستان کی مرکزی سرکار کو امداد سے بھی نوازا۔ اس وقت بھی قبائلی علاقوں میں امریکی امداد مشروط طور پر استعمال ہو رہی ہے۔اس وقت ہمارے دفاعی ادارے اور سول خفیہ ادارے بالکل بے بس نظر آرہے ہیں۔ وہ پاکستان کے مفاد میں کچھ بھی آزادنہ طور پر نہیں کر سکتے۔ مرکزی حکومت اس معاملہ پر شدید بدانتظامی کی سرخیل ہے۔ وہ اس مسئلہ کا حل امریکی مفادات کے تناظر میں تلاش کر رہی ہے۔ جبکہ اس معاملہ میں پاکستان کے مفادات میں بہترین کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ مشکل تر کام کرنے کا حوصلہ ہمارے سیاسی حکمرانوں کو بھی نہیں ہے۔ وہ سب لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ امریکی جاسوس کتنا اہم ہے کہ صدر امریکہ اس کے لیے بات کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ہمارا ڈپلومیٹ ہے۔ پھر ہمارے ہاں کے ترقی پسند اخبار نویس بھی سیٹھوں کی سی زبان بول رہے ہیں، فوج میں بھی اس معاملہ پر اختلاف رائے ہے، مگر وہ اس کا حل سول انتظامیہ سے چاہتے ہیں۔ اس اہم مسئلہ پر صدر پاکستان اور جنرل کیانی مشاورت بھی کرتے رہے ہیں۔ رائے عامہ اور میڈیا کی وجہ سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ آج سے چند سال پہلے سابق فوجی آمر مشرف کے زمانہ میں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر پر الزامات لگائے گئے۔ ان کے بارے میں شہادت امریکہ نے دی۔ مگر ڈاکٹر قدیر اور ایٹمی معاملات کو بالکل بے بس کر کے قومی مفاد کے نام پر جنرل مشرف نے معافی نامہ جاری کیا۔ اس وقت بھی امریکہ کو معلوم تھا کہ عوامی ردعمل شدید ہوگا، اس نے اپنے لوگوں کی مدد سے ڈاکٹر قدیر کی کمزوریوں کو استعمال کرکے پاکستان کے معاملات میں کھلے عام مداخلت کی۔ اس وقت ہمارے خلاف شہادت دینے والوں میں ہمارا ایک دوست ملک لیبیا بھی شامل تھا۔ جس کا صدر اب پاکستان پر الزام لگا رہا ہے اور اپنے ہاں آنے والے انقلاب یا تبدیلی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کل کے انقلاب پرست خود ہی غاصب بن گئے اور امریکہ کے جلال کی تاب نہ لا کر اپنے ملک اور عوام کو بے بس رکھا۔ مگر اب امریکہ کا آسیب ختم ہو رہا ہے، کل تک مسلمان علاقوں میں لارنس آف عریبیہ آتا تھا اور اس کا دوسرا بہروپ ریمنڈ ڈیوس کے روپے میں نظر آرہا ہے۔ یہ امریکہ کی بدقسمتی کہ اس نے اپنی حدود کو توڑا، جس کی وجہ سے وہ قابل گرفت ہوا۔
ہمارے سیاسی حکمران اور اعلیٰ عوامی لوگ سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ ان کے تانے بانے بھی امریکی مفادات کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ یہ جو سیاسی سیٹ اپ اس وقت ملک میں ہے اس کا سکرپٹ اور منظر نامہ ہماری فوج نے لکھا تھا۔ اگر جنرل مشرف اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بے رحم کارروائی نہ کرتا تو اس کا اقتدار اپنے امریکی اور برطانوی دوستوں کی مدد سے کافی اور عرصہ چل سکتا تھا۔ بے نظیر اور میاں نوازشریف کے ساتھ معاملات کرنے کا حل تو امریکی مہربانوں نے دیا تھا انہوں نے فریقین کو گارنٹی دی، پھر جب عوامی ردعمل دیکھا تو انہوں نے اپنے آپ کو بے بس ظاہر کرکے فوج کو معاملات طے کرنے کا اختیار دیا۔ اس وقت کے معاملات میں جنرل کیانی کا کردار بہت ہی اہم رہا۔ ان کا منظور کردہ منظر نامہ اور کردار آج کی سیاست میں نظر آرہے ہیں۔
اس وقت فوج میں جنرل کیانی کے بعد بااثر شخصیت جنرل پاشا کی ہے۔ ان کو بھی اندازہ ہے کہ سول سرکار میں کون کون لوگ امریکی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں، جس وقت جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے۔ ان میں نمایاں شخصیت رحمان ملک کی تھی۔ پھر میاں نوازشریف اور بے نظیر کے درمیان جو معاملات لندن میں طے ہوئے ان میں بھی رحمان ملک اس وقت فوج کے کچھ اداروں کے لیے قابل توجہ ہو چکے ہیں۔ وہ ہر مسئلہ کو مناسب قیمت پر حل کروا دیتے ہیں، مگر یہ امریکہ سازش ان کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ ہے۔ (جاری ہے )