لیبیا میں جاری عوامی احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا ہے جبکہ صدرمعمر قذافی کے آبائی شہرادبیہ میں بھی صورتحال کنٹرول سے باہرہوگئی ہے۔مظاہرین نے اسلحہ ڈپو پر قبضے کرلیا ، یہاں جنگی طیاروں کی پروازیں مسلسل جاری ہیں۔ بن غازی میں متوازی حکومت نے کام شروع کردیا ہے، جبکہ دو امریکی بحری جہاز لیبیا کی جانب بڑھنا شروع ہوگئے ہیں جس پر دو ہزار میرین سوارہیں ۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ لیبیا کے عوام پرتشدد فوری بند کیا جائے اوروہاں سے غیرملکیوں کو نکالنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ، ادھرامریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ لیبیا کی موجودہ صورتحال میں ایران کا کوئی کردارنہیں ، مشرق وسطی کے موجودہ حالات القاعدہ کے لیے دھچکا ہیں ، لیبیا میں تشدد کے خاتمے کے لیے کئی اقدامات پرغورکررہے ہیں، ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ لیبیا کے صدر معمرقذافی اپنے ہی عوام کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی کے حالات میں ایران کے ملوث ہونے کا اشارہ نہیں ملا لیکن ایران مشرق وسطی کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتاہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا صورتحال پر کہنا تھا کہ لیبیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے پرامن جمہوری ملک بننا ہے یا خانہ جنگی طرف جانا ہے ۔