اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + آئی این پی) سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے 20ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد نامکمل الیکشن کمشن کے تحت ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے 28 معطل ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت بحال کردی۔ عدالت نے الیکشن کمشن اور نادرا کی جانب سے انتخابی فہرستوں کی ری شیڈولنگ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے 6 مارچ تک انتخابی فہرستوں میں تاخیر اور ان کو ری شیڈول کرنے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ طلب کرلی، دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ہمیں علم ہے کہ ضمنی الیکشن میں کتنی مارکٹائی ہوئی؟ ¾ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے۔ اس کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے انتخابی فہرستوں میں جعلی ووٹوں کے اندراج بارے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے موقف اختیارکیا کہ20ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ضمنی انتخابات میںکامیاب ہونے والے امیدواروں کی رکنیت کی توثیق ہو گئی ہے جس پر عدالت نے معطل ارکان کی رکنیت بحالی بحالی کے احکامات جاری کئے ۔ عدالت نے الیکشن کمیشن اور نادرا حکام سے انتخابی فہرستوں کی تیاری کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے قرار دیا کہ آپ نے کس اختیارات کے تحت باوجود سپریم کورٹ کے حکم پر فہرستوں کو ری شیڈول کیا عدالت نے آپ کو 23 فروری کاوقت دیا تھا بیسویں ترمیم کے بعد تو معاملہ مختلف ہو گیا ہے۔ الیکشن کمشن اب سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آ گیا ہے جوڈیشل کونسل کی طرزپر ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے ۔ جسٹس طارق پرویز نے کہاکہ بیسویں ترمیم کے بعد الیکشن کمشن ایسا ادارہ بن گیا ہے کہ وہ اپنے مالک کو خود چنے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کمیشن آزاد ضرور ہو گیا لیکن خود مختار نہیں ۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمشن اور نادرا حکام سے استفسارکیاکہ آپ نے فہرستوں کو ری شیڈول کیوں کیا؟۔ انہوں نے کہاکہ اس اقدام سے الیکشن کمشن نے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ اب تو عدالت کے فیصلوں کا مذاق اڑانا فن بن گیا ہے گھر بیٹھ کر عدالتی فیصلے تبدیل کر دیئے جاتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمشن خود سے عدالت کو بتائے بغیر انتخابی فہرستوں کی تیاری کا ٹائم فریم تبدیل نہیں کر سکتا اگر اسی طرح معاملہ چلتا رہا تو مزید ایک سال میں بھی تیار نہیں کر سکتے ہم دو سال سے ووٹر فہرستوں کو تیار کرنے کا کہہ رہے ہیں کوئی عملدرآمد نہیںہورہا ہمیں وجوہات بتا دی جائیں ؟ عدالت نے نادرا اور الیکشن کمیشن کے حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چھ مارچ تک انتخابی فہرستوں میں تاخیر اور ان کی ری شیڈولنگ کی وجوہات بارے رپورٹ طلب کر لی۔ انتخابات کے دوران بے تحاشا اخراجات رکوانے سے متعلق ایڈووکیٹ حسن منٹو کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت بھی کی گئی ۔ حسن منٹو نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کو اس مقدمے میں تیاری کیلئے وقت دیا جائے، تحریک انصاف کی جانب سے ایڈووکیٹ حامد خان نے کہاکہ ہم مزیدکچھ تجاویز دے سکتے ہیں جس پر عدالت نے انہیں حکم دیاکہ آپ تجاویز جواب کے ساتھ جمع کرا دیں ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سمندر پار پاکستانیوں کو انتخابات میں حق رائے دہی کے معاملے کے حوالے سے استفسار کیا تو اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس حوالے سے وہ وفاقی حکومت کا موقف جلد عدالت میں پیش کر دیں گے۔ عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ آئندہ سماعت سے قبل جواب جمع کرا دیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہاکہ الیکشن کمشن نے 23 فروری تک لسٹیں بنانے کے حکم پر عمل نہ کیا ۔ عدالتی حکم پر عمل نہ ہونے کا نوٹس لیا جائے گا۔ ووٹوں کا معاملہ الیکشن کمشن ،نادرا یا سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ 18کروڑ عوام کا ہے جنہیں عوامی نمائندوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ہم اس معاملے کو نرمی سے نہیں لیں گے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ الیکشن کمشن نے شیڈول بدلنا تھا تو عدالت سے اجازت لیتا۔ الیکشن کمشن خود شیڈول تبدیل نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ووٹر لسٹوں کی تیاری کا شیڈول بدلنا غیر قانونی ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا الیکشن کمشن کو جہاں آزادی دکھانا چاہئے وہاں حالات دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ٹی وی چینلز پر کیا نہیں چلا، عالمی میڈیا پر بھی نشر ہوا۔جسٹس طارق پرویز نے کہاتھا کہ الیکشن کمشن خود کو آزاد تصور کرے، خود مختار تصور نہ کرے۔ووٹر لسٹوں میں تاخیر پر نادرا کو بھی بھگتنا ہوگا۔20 ویں ترمیم میں نگران حکومت کی ذمہ داری الیکشن کمشن کو دی گئی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ملازم کو آقا کا انتخاب کرنے کا کہہ دیا جائے۔ چیف جسٹس نے جمشید دستی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب جائیں اور جا کر وزیر بن جائیں۔ مقدمہ کی سماعت 6 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔عدالت عظمیٰ میں ووٹر فہرستوں کی تیاری کی مدت میں توسیع کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے چیئرمین نادرا، الیکشن کمشن اور سیکرٹری الیکشن کمشن سے تحریری وصاحت طلب کر لی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ نادرا اور الیکشن کمشن کے کہنے پر حتمی تیاری کیلئے 23فروری 2012ءکی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ شیڈول میں توسیع عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ہے، توسیع سے قبل عدالت سے اجازت لیا جانا ضروری تھا، نادرا اور الیکشن کمشن اپنے طور پر توسیع نہیں کر سکتے، یہ کام غیر قانونی ہے۔ جسٹس طارق پرویز نے کہاکہ الیکشن کمشن کے آزاد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آئین کی خلاف ورزی شروع کر دے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ 18کروڑ عوام کا معاملہ ہے جن کے ووٹ سے اراکین منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی نصیر بھٹہ نے کہاکہ الیکشن کمشن کی جانب سے بلاکس کی تعداد بڑھانے سے بھی مشکلات درپیش ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ کو یہ بات نہیں کہنی چاہئے آپ رکن پارلیمنٹ ہیں آپ اس طرح وہاں آواز کیوں نہیں اٹھاتے یہ کام پارلیمنٹ کے کرنے کے ہیں۔ وزیر قانون کا بیان دیکھیں انہوں نے کہا ہے کہ 20 ویں ترمیم سپریم کورٹ کے احکامات کے باعث منظور ہوئی اور الیکشن کمشن خود مختار ہوا۔ ادارے مضبوط ہو رہے ہیں یہ اچھی بات ہے اچھے کام کی ہم تعریف کریں گے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ معاملہ ابھی کابینہ میں نہیں آیا، ووٹ کا حق دینے کے کوئی خلاف نہیں تاہم ابھی طریقہ کار طے کیا جانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کئی معاملات غور طلب ہیں کہ ووٹ کو خفیہ کس طرح رکھا جائے گا، ووٹ کاسٹ کس طرح ہو گا پھر سیاسی جماعتیں دھاندلی کے حوالے سے تحفظات ظاہر کرسکتی ہیں۔ ووٹ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے کاسٹ ہو گا یا ان ممالک میں پولنگ سٹیشن بنائے جائیں گے اگر وہاں بنائے گئے تو کسی ایک شہر میں بن پائیں گے، دوسرے شہروں میں مقیم پاکستانی کس طرح حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے درخواست کی کہ جواب داخل کرنے کیلئے کچھ وقت دیا جائے۔
سپرےم کورٹ
سپرےم کورٹ