خبر ہے کہ ۔”قومی اسمبلی کے اجلاس میں، سیّد ظفر علی شاہ نے، پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذالفقار علی بھٹو کے نام کے ساتھ۔ ”مرحوم“۔ کا لفظ استعمال کیا تو پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے ہنگامہ کر دیا، اور "Shame,Shame" کے نعرے لگائے۔ پھر ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان کو اعتراض تھاکہ سیّد ظفر علی شاہ، پیپلز پارٹی میں تھے تو بھٹو صاحب کو۔ ”شہید“۔ کہتے تھے اور اب مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر انہیں۔ ”مرحوم“۔ کیوں کہہ رہے ہیں؟“۔
عربی زبان کے لفظ۔”مرحوم“۔ ۔ (جو فارسی اور اردو میں بھی مُستعمل ہے) کا مطلب ہے۔”جس پر رحمت کی گئی ہو“۔ مسلمان، مرے ہوئے مرد کو۔ ”مرحوم“۔ اور عورت کو ۔”مرحومہ“۔ کہتے ہیں۔ ہندوﺅں میں مرے ہوئے مرد اور عورت کے لئے۔”سﺅرگ باشی“۔ کی ترکیب استعمال ہوتی ہے، جِس کا مطلب ہے۔ ” خُلد آشیانی یا جنّت مکانی“۔ اِس لحاظ سے ،ذوالفقار علی بھٹو یا وفات پا جانے والے، کسی مسلمان لیڈر یا عام انسان کو۔”مرحوم“۔ کہنے والوں کے خلاف"Shame,Shame" (یعنی شرم کرو! شرم کرو!)۔ کے نعرے لگانا، مناسب نہیں ہے۔
اللہ کی راہ میں، قتل ہونے والے شخص کو۔ ”شہِید“ کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں، سیاسی مخالفین کے ہاتھوں قتل ہونے والے، لیڈروں اور کارکنوں کو (اُن کے احترام میں)۔ ”شہید“۔ کہنے کا رواج ہے۔بے شک کہتے رہیں۔ 1947ءمیں ، مشرقی پنجاب کے تین ضلعوں میں،میرے خاندان کے 26افراد، شہید ہوئے تھے۔ میرے چچا رانا فتح محمد اور پھوپھا چودھری محمد صدیق(مسلم لیگ نیشنل گارڈز کی حیثیت سے) سِکھوں کے ساتھ، لڑتے ہوئے شہید ہُوئے تھے۔ اگر کوئی انہیں مرحوم کہہ دے تو ،میں اُس کے گلے نہیں پڑتا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو، نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں شریک ،بڑے ملزم کی حیثیت سے پھانسی کی سزا ہُوئی تھی۔ بھٹو خواتین نے اُسے۔ ”عدالتی قتل“۔ قرار دیا تھا، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے، اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں، سپریم کورٹ سے، بھٹو صاحب کو۔ ”شہید“۔ Declare کروانے میں دلچسپی نہیں لی اور نہ ہی صدر زرداری نے ۔یُوں بھی سپریم کورٹ کے پاس کسی شخص کو ”شہید “قرار دینے کا اختیار بھی نہیں ہے۔
ہم علامہ اقبالؒ، قائدِ اعظم ؒ اور دوسرے اکابرین کو، (اُن کی قومی خدمات کی وجہ سے۔” رحمت اُللہ علیہ“۔ (اُن پر اللہ کی رحمت ہو) کہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگ اگر، بھٹو صاحب کو رحمت اللہ علیہ بھی کہہ لیں تو کسی کو کیا اعتراض، لیکن اگر وہ راستے میں ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جائیں اور ہر شخص سے جنابِ بھٹو کو ۔ ”شہید“۔ کہلوائیںتو "Shame,Shame" کے جواب میں انہیں بھی "Shame to you"کے نعرے ملیں گے۔اب میں اپنے ایک ایسے بزرگ دوست کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جو چند ہی دِن پہلے۔ ”مرحوم“۔ ہوئے ہیں۔ وہ تھے تحریکِ پاکستان کے کارکن، مُلک کے نامور ماہرِ تعلیمات اور اقبالیات پر اتھارٹی۔ ڈاکٹر نذیر قیصر۔ ڈاکٹر صاحب سے میری نیاز مندی 1973ءسے تھی۔اُن سے میری ،دوستی کی بڑی وجہ ہم (دونوں کی مادری زبان) پنجابی سے محبت تھی۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کہا کرتے تھے کہ۔ ”1857ءکی جنگ ِ آزادی میں پنجابیوں (خاص طور پر پنجابی مسلمانوں) نے بڑھ چڑھ کر حِصّہ لیا تھا، اسی لئے انگریزوں نے مسلمانوں اور پنجابی زبان کو ناپسندیدہ قرار دے دیا تھا“۔
ڈاکٹر نذیر قیصر (Self -Made) انسان تھے۔ لڑکپن میں قائدِ اعظم ؒ کی تقریریں سُن کرتحریکِ پاکستان کے کارکُن بن گئے۔ میٹرک میں اُن کی اردو اور فارسی بہت اچھی تھی۔ جِس کی وجہ سے اُن کا علامہ اقبالؒ سے لگاﺅ ہُوا۔ انٹرمیڈیٹ کے طالبعلم تھے جب 1950ءمیں، سر سید کیمرج سکول قائم کیا۔ پھر بی اے اور ایم اے۔ لندن یونیورسٹی سے ”پوسٹ گریجویٹ سرٹیفیکیٹ اِن ایجوکیشن“۔ کا ڈپلومہ لِا۔ 1857ءمیں فلسفہ میں ایم اے کیا۔ پھر "Rumi's Impact on Iqbal's Religious Thoughts"کے عنوان سے تھیسس لِکھ کر پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
بھارت کے ایک سکالر ٹی۔ ایس۔ رستوگی نے ایک کتاب لِکھی، جِس کا عنوان تھا"Iqbal and Western Philosophers" ۔اِس کتاب میں مسٹر رستوگی نے یہ خیال پیش کیا کہ۔ ”علامہ اقبال ؒ نے جو کچھ لِکھا، مغربی فلسفیوں کی دین تھا“۔ ڈاکٹر نذیر قیصر نے اُس کے جواب میں "Iqbal Today" کے عنوان سے کتاب لِکھی، جِس میں ثابت کِیا کہ۔ ”علامہ اقبال ؒ نے خیالات، قُرآن پاک سے لئے اور صوفی اِزم سے“۔ڈاکٹر نذیر قیصر پہلے سکالر تھے، جنہوں نے علامہ اقبالؒ کو Psycho Therapist (نفسیاتی معالج)کے طور پرمتعارف کرایا۔ اِس سِلسلے میں انہوں نےA Critique of Western Psychology and Psychotheraypy and Iqbal'S Approach لِکھی۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کہا کرتے تھے کہ جب تک ہم Child Education کو فروغ نہیں دیں گے، نئی نسل کا مستقبل روشن نہیںہوگا۔ انہوں نے اپنی تخلیقات اور عمل سے اقبال کے مردِ مومن کے تصّور کو اُجاگر کِیا۔
ڈاکٹر نذیر قیصر۔تحریکِ پاکستان اور تحفظ ِ پاکستان کے لئے ،جناب حمید نظامی اور محترم مجید نظامی کی خدمات کے بہت معترف تھے۔وہ۔ مجید نظامی صاحب کی سربراہی میں سر گرمِ عمل ۔”نظریہءپاکستان ٹرسٹ اور ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان“۔ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حِصّہ لیتے تھے۔ انہوں نے پچیس لاکھ خرچ کرکے نظریہ پاکستان کو لائبریری کا تحفہ دیا۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کے چار بیٹوں میں سے، ڈاکٹر شہزاد قیصر سے، میری دوستی دسمبر 2004ءمیں ہوئی، جب اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب، چودھری پرویز الہی کی قیادت میں ، سیاسی کارکنوں ، اعلیٰ افسروں ، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کا ایک بڑا وفد۔ ”عالمی پنجابی کانفرنس“۔ میں شرکت کے لئے پٹیالہ(مشرقی پنجاب) گیا تھا۔ ڈاکٹر شہزاد قیصر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج، آرٹ اینڈ کلچر کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ڈاکٹر صاحب 2010ءمیں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے سپیشل سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے، آج کل اقبال اکیڈمی کے اعزازی وائس پریذیڈینٹ اور پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد قیصر اپنے عظیم والد کے صحیح جانشین اور درویش ہیں۔ ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے، جب وہ، لاہور کے فُٹ پاتھ پر، جُوتیاں گانٹھنے والے ایک درویش، صوفی محمد طفیل کے مُرید ہُوئے، اب اُن کے خلیفہ ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد قیصر اقبال ؒ کے عاشق، انگریزی، اردو اور پنجابی کے نثر نگار اور شاعر ہیں، کئی کتابوں کے مصنف۔شیخ سعدی شیرازی ؒ نے کہا تھا۔۔
”زندہ است، نامِ فرخ نو شیرواں بعدل
گرچہ، بسے گذشت ،کہ نو شیرواں، نماند“
یعنی نوشیرواں کا مبارک نام، انصاف کی وجہ سے زندہ ہے۔ اگرچہ زمانہ گُزر گیا کہ نوشیرواں نہیں رہا۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کو اگر۔ ”مرحوم“۔ لِکھا جائے تو اُن کی شان نہیں گھٹتی ۔علم و فضل کے لحاظ سے ۔”زندہ است نامِ فرخ ڈاکٹر نذیر قیصر“