قائد اعظم میڈیکل کالج کا نام تبدیل کرکے ذوالفقار علی بھٹو رکھ دیا گیا جس کے خلاف محب وطنوں نے خوب شور مچایا مگر ان کا یہ شور بھی شوربہ بنا دیا گیا۔ میں اس موضوع پر قلم اٹھانے سے گریز کر رہی تھی مگر لاہور سے ہمارے جمیل انکل نے فون کر کے ہمارے پریشان ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ جب بھی کوئی شرمناک واقعہ پیش آتا ہے، میں فوری ردعمل سے اجتناب کرتی ہوں کہ مبادا کالم ایڈٹ ہو جائے۔ جذبات ٹھنڈے ہو جائیں تو قلم اٹھاﺅں مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید شرم دلاتے ہیں۔ یہ بات بھی کیا خوب ہے کہ بھٹو اور اس کی بیٹی مر کر بھی زندہ ہیں اور ان کا داماد زندہ ہوتے ہوئے بھی بے نام ہے۔ آصف علی زرداری صاحب کی تھالی سے کھانے والے کوئی یونیورسٹی یا ہسپتال اپنے محسن کے نام بھی منظور کروا دیں کہ ان کی آنے والی نسلیں ”زندہ ہے زرداری زندہ ہے“ کے نعرے بھی لگا سکیں۔
بھٹو اور ان کی بیٹی کو اعزاز بھی دئیے جاتے ہیں تو ”اترن“ کی صورت میں۔ پاکستان کے قائدین پر قائداعظمؒ کا صدقہ جائز ہے۔ قائداعظمؒ کے نام پر قائم میڈیکل کالج کو بھٹو کے نام صدقہ کرنے سے اگر بخشش کا سامان ہو سکتا ہے تو اللہ اس نیک کام میں خیرو برکت ڈالے۔ قائداعظمؒ کی تصاویر کی جگہ باپ بیٹی، داماد اور نواسے نواسیوں کی تصاویر آویزاں کر دی جاتی ہیں۔ پانچ سال سے جاری یہ ٹوپی ڈرامے اب اختتام پذیر ہونے کو ہیں مگر ان ڈراموں نے مسلم لیگ (ق) کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بھٹو زندہ ہے، بی بی زندہ ہے اور آصف علی زرداری بھی زندہ ہے۔ ان کا نام بھی کسی ادارے سے منسوب ہو نا چاہئے۔ زرداری کے جیالے، زرداری کے اعزاز میں ایک نیا ادارہ قائم کریںگے ۔آصف علی زرداری کا پا نچ سالہ عالمی ریکارڈ تقاضہ کرتا ہے کہ ان کے اعزاز میں ”آصف علی زرداری کشکول یونیورسٹی“ قائم کی جائے جس میں فقیروں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کی جائے اور معاشرے میں انہیں باعزت مقام دلایا جائے۔ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے فقیروں کو ”میڈ ان امریکہ“ کشکول پیش کئے جائیں۔ آصف علی زرداری صرف ایک تاریخی داماد نہیں بلکہ ایک جمہوری فرزند بھی ہیں۔ انہوں نے پانچ سال صرف بھٹو کے نام پر نہیں بلکہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر حکومت کی ہے۔ یہ ان کی عجز و انکساری ہے کہ ایک مقبول لیڈر ہونے کے باوجود وہ بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ (خاکم بدہن) مستقبل میں بھی ان کی باری آ گئی تو پاکستان کے باقی ہسپتال، ہوائی اڈے اور یونیورسٹیاں بلاول، بختاور اور آصفہ کے نام منسوب کر دی جائیں گی۔آصف علی زرداری کی فقیری نے انہیں دنیا کے اعزازات سے بے نیاز کر دیا ہے البتہ جیالوں کو شرم آنا چاہئے اور اس سے پہلے کہ جمہوریت کے آخری ایام بھی دم توڑ جائیں، آصف علی زرداری کشکول یونیورسٹی“ کا قیام عمل میں لانے کا بل منظور کرا لیں۔ آصف علی زرداری کشکول یونیورسٹی“ کے لئے تعلیمی ماہرین امریکہ سے ہائر کئے جائیں جو پاکستان کے فقیروں کو ایمانداری کا سبق پڑھائیں۔ امریکہ سے صرف مانگا ہی نہ جائے بلکہ مانگنے کا سلیقہ بھی سیکھا جائے۔ آجکل میڈیا پر ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ ”ایمانداری نے ایک فقیر کو کروڑ پتی بنا دیا“ یہ اہم خبر پاکستان کے حکمرانوں کی نظر سے نہیں گزری ورنہ پاکستان کے سرکاری فقیر چلُو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔ امریکہ میں ایک فقیر کو خیرات دیتے ہوئے ایک خاتون کی ہیرے کی انگوٹھی بھی کشکول میں جا گری۔ انگوٹھی کی تلاش میں وہ خاتون جب اس فقیر تک پہنچی تو فقیر نے ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگوٹھی واپس کر دی۔ خاتون نے فقیر سے کہا ’یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ہیرے کی قیمتی انگوٹھی ہے، تم نے واپس کر دی؟ فقیر نے کہا ’میڈم! میں فقیر ہوں، بے ایمان نہیں! اس فقیر کی ایمانداری نے اسے راتوں رات امیر بنا دیا۔ فقیر کی ایمانداری کو سراہتے ہوئے اس خاتون نے ایک امدادی فنڈ قائم کر دیا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ لاکھ ڈالر جمع ہو گئے۔ ”آصف علی زرداری کشکول یونیورسٹی“ میں اس ایماندار امریکی فقیر کو بطور چیئرمین نامزد کیا جائے تاکہ ادارے کا نام بُری شہرت سے محفوظ رہ سکے۔ (ق) قینچی نے جس مہارت سے قائداعظم کا نام ”کٹ“ اور پیپلز پارٹی نے جس عیاری سے بھٹو کا نام ”پیسٹ“ کیا ہے، اس سے ان لوگوں کی بابائے قوم کے ساتھ عقیدت بے نقاب ہو گئی ہے۔ آئندہ انتخابات میںعوام ان لوگوں کو ووٹ دے کر قائداعظمؒ کے ساتھ غداری کا ثبوت دیں گے۔ قائداعظمؒ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا ”مسلمانانِ ہند کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ حصول پاکستان میں ناکام ہو گئے تو وہ فنا ہو جائیں گے۔ مسئلہ پاکستان، مسلمانوں کے موت و حیات کا مسئلہ ہے اور مجھے اعتماد ہے کہ ہر مسلمان اس امر سے باخبر ہے“ ( ڈان 12 جنوری 1946) تب حصول پاکستان ، مسلمانوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ تھا اور آج تحفظ پاکستان موت و حیات کا مسلہ بنا ہوا ہے۔ چند غداروں اور مفاد پرستوں نے پاکستان کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ پاکستان کے اداروں کوملک توڑنے والوں سے نہیں، ملک بنانے والوں سے منسوب ہونا چاہئے۔