پاکستانی قوم کی اپنی ایک نفسیات ہے۔ یہ فلاح کے کاموں پر خوش ہوتی ہے، جذباتی ہوتی ہے اور اگر اہلِ لاہور ہوں تو بھنگڑا بھی ڈالتی ہے۔ پاکستان کے اکثر بڑے بڑے کام اس بزرگ شہر سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ داتا کی نگری ہے۔ یہاں برکتوں کا اور فیضان کا نزول ہوتا ہے۔ انوار برستے ہیں۔ پکوان پکتے ہیں اور خلق ِخدا حِظ اٹھاتی ہے۔ اس شہر بے مثال نے گذشتہ برسوں میں ایک بہت بڑے منصوبے کو بہت کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھا ہے اور پاکستانی قوم کی نفسیات کے مطابق میٹرو بس منصوبے کے کام کے دوران میں طنز کے لاتعداد نشتر چلائے گئے۔ تنقیدوں کے ہزاروں صفحات رقم ہوئے۔ یہ عظیم منصوبہ تقریروں میں ہدف تنقید بنا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بخیر و خوبی اپنے اختتام تک پہنچا اور آج پاکستانی قوم اپنے روائتی انداز میں میٹرو بسوں سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میںاکثر مزاحیہ کالم لکھتاہوں، طنز کرتا ہوں، کبھی سیاسی مسائل پر اور کبھی سماجی مسائل پر لیکن آج ایک بیوہ کی ایک فون کال نے میری حس مزاح چھین لی ہے۔ آج میری تحریر آنسوﺅں میں ڈوبی ہوئی ہے اور یہ طنز نہیں، التجا کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ زندگی اور حالات انسان کو نیکی کے مواقع دیتی ہیں۔ کوئی جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے، امتحان بھی اتنے ہی سخت اور مواقع اتنے ہی زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کا نام ان کی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے زندہ ہے۔ ملکہ زبیدہ نے نہر سویز کی تعمیر سے خلق خدا کی فلاح کا کارنامہ سرانجام دیا۔ بہلول دریائیؒ ریت کے گھروندے کے بدلے جنت کے گھر دیتا ہے اور سودا ان دیکھے کرنا پڑتا ہے۔ اجتماعی کاموں کے مواقع بھی نازک ہی ہوتے ہیں اور اہم بھی۔ موٹر وے کا منصوبہ نازک اور اہم تھا۔ اجتماعی بھلائی کا منہ بولتا ثبوت اور نام زندہ رکھنے کا وسیلہ بن گیا۔ میٹرو بس کا منصوبہ اہم اور نازک تھا لیکن نام کا ضامن بن گیا۔ نہر سویز جیسے بڑے منصوبے کے ساتھ ساتھ بہلول کا ریت کا گھروندا، بظاہر چھوٹا لیکن بہت ہی اہم ہے اور یہ گھروندا بہت نازک ہے، ریت کا، ریت ہاتھوں ہاتھوں ہی گر جاتی ہے۔ اسی طرح محکمہ تعلیم پنجاب کا ایک چھوٹا سا گھروندا، اسکندریہ ہائی سکول، چوک یتیم خانہ، لاہور کا ایک پی ٹی سی ٹیچر محمد ارشد ڈینگی ڈیوٹی کے دوران میں گذشتہ سال ڈینگی بخار کی شدت سے ایک بیوہ او چار بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ کر ریت کی طرح بکھر گیا۔ بیوہ کے پاس رہنے کے لئے گھروندا نہیں۔ اس کی امید کا گھروندا تو جناح ہسپتال لاہور میں 21ستمبر 2011ءمیں گر گیا اس نے محکمہ صحت میں وزیراعلیٰ پنجاب کے اعلان کے مطابق پانچ لاکھ کی امداد کی درخواست دے رکھی ہے اور درخواست کے تمام مراحل مکمل کروا کر چیک کے اجرا کی مدت سے منتظر ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے گذشتہ برسوں میں اس افتاد کے سامنے بڑی کامیابی سے کام کیا اور آج کل ڈینگی آگاہی مہم کا پھر سے آغاز ہو گیا ہے۔ ڈینگی مکاﺅ مہم کے پوسٹر شہر بھر میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ سکولوں، کالجوں اور مختلف سرکاری اداروں میں وزیراعلیٰ کی اس مہم کے حوالے سے سیمیناروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا کام بھی شروع ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت کے احکامات پر مختلف ادارے اس موذی مرض کے خلاف سینہ سپر ہو چکے ہیں۔ لیکن نازک معاملات بھی ساتھ ساتھ ہیں۔ بڑے بڑے منصوبوں، موٹر وے، میٹرو بس، آشیانہ سکیم، کیری ڈبہ روزگار سکیم، لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ کے ساتھ ساتھ بہلول کا گھروندا بھی بک رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو خادم اعلیٰ کے عہدے پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ بہلول کا گھروندا ایمان کا امتحان ہے، ان دیکھے بدلے کا اور ان دیکھے بدلوں کے لئے سوچنے کی نہیں، فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ دیر ہو جاتی ہے۔
بہلول کا گھروندا
Mar 01, 2013