۲۰ فروری کو ایک ادبی نشت الحمرا ہال نمبر 2 میں اکادمی ادبیات کی طرف سے چیئرمین عبدالحمید صاحب کی سر پرستی میں منعقدہوئی۔ تقریب کا عنوان "امن اور محبت کے سفیر" تھا۔ امن ہمارے معاشرے کی وہ ضرورت ہے جس کے لیے گھر گھر سے سفیروں کے لشکرنکالنے کا وقت آچکا ہے۔ معصوم بچے کی خواہش کی مانند چاند بوتل میں بند کر کے کوبہ کو روشنی پھیلانے کو نکلنا پڑے گا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اس تقریب کے شاعر سچل سرمست۔ خوشحال خان خٹک اور جام درک نے اپنی شاعری اور قلم کے ذریعے اُسی بچے کی بوتل میں بند "چاند" کی چاندنی پھیلانے کی کوشش کی۔۔۔اپنی تحریک،جدو جہد اور کوششوں میں کون کامیاب ہوتا ہے کون ناکام اس کا فیصلہ تو وقت معاشرہ اور حالات کرتے ہیں۔جام درک کے بارے میں الطاف قریشی نے کہا کہ جام درک ہمیں تہذیب کا درس دیتا ہے۔ سچل سرمست نے معاشرے کو صدیوں پہلے بیان کیا آج معاشرے میں اُسی تحریر کا عکس نمایا ں ہے۔ خوشحال خان نے کہا تھا میں پشاور کو بارود اور آگ میں جلتا دیکھتا ہوں اور آج وہی مناظر ہیں۔ قلم کی تحریر ایک الہامی کیفیت ہے۔ ایک غیب کی خبر ہے۔ اسے کبھی بھی فرو گذاشت نہیں کیا جا سکتا۔ ایک عام انسان کی نگا ہ سے ہٹ کر وقت کی دبیز تہوں کو پرت پرت کھولتے،بادِ سحری سے باد سر سر تک تمام رنگ خوشبو،روشنی،تعفن اور ظلمت شاعر اور ادیب کی نگاہِ ناز میں آئینہ کے مانند عکس بناتے چلے جاتے ہیں اور پھر اُس آئینہ کی بدولت شاعر کہتا ہے....محبت کی مری انتہا دیکھناعکسِ خوشبو صبا سے جُدا دیکھنایہ باریک بینی یہ نگاہِ ناز کی قلم افروز آشفتہ سری یہ تو انہی بڑے شاعروں اور ادیبوں کا خاصہ رہی ہے۔ قلم معاشرے کا آئینہ دار ہی نہیں بلکہ علم افروز دانشور اور نقاد کی حیثیت سے اس کے ہر مرض کی نبض پہ ہاتھ رکھے ہوتا ہے۔پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر اویس قرنی کے بہت خوبصورت بات کی کہ ©"کسی بڑے آدمی کاجسم فنا ہو کر بھی لوٹ آتا ہے" معاشرے اور وطن سے محبت کرنے والے امن کی سفیر گہرے مہیب سمندر سے ٹکرانے اور آبدارِ بحر سے چمک حاصل کرنے کے مترادف ہوتے ہیں۔خوشحال خان اپنی حکمت و دانائی میں اس نہج پہ تھے کہ امبروز و فرداکے دقیق مسئلے کی گرہ آج بھی اُن کی دانائی سے کھل سکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ملک و قوم کا اختیار کبھی میراث میں نہیں ملتا۔ اس کے لیے ہمیشہ طاقت تلوار حکمت،تبلیغ اور عشقِ غلامیِ رسول اللہ اور مردِ خُدا کی ضرورت ہے۔۔۔یہ ہمیشہ انسان کے مدِ نظر ہونا چاہیے کہ دشمن کبھی طاقتور نہیں ہوتا ۔ ہم خود کمزور ہوتے ہیں۔ جب افراد و اقوام میں لالچ و حرص کے تنازعات اُبھرنے لگیں تو باہر سے پھینکے گئے بارود اور لگائی گئی آگ کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ادب کی تلوار سے ہمیشہ امن اور عدل کی روشنی پھوٹتی ہے۔ قلم آج تک جو ضبط تحریر میں لایا وہ خوشحال خان کا ہو جام درک، سچل سرمست ، بلھے شاہ ، وارث شاہ، سائیں اختر حسین کا یا کسی ناخواندہ دور دراز علاقے کے کسی جھونپڑی میں بیٹھے مفلوک الحال شاعر و ادیب کا جب وہ پانی کے دو گھونٹ اس سرزمین سے پی لیتا ہے تو سو سال تک وفا نبھاتا ہے اور یہ وہی وفا ئیں ہیں جو قلم کے ذریعے پیشن گوئی کر کے پھیلا دی گئیں۔۔۔۔۔جس طرح یہ حقیقت اظہر امن الشمس ہے کہ "پگڑی باندھنے والے سر تو ہزاروں ہیں مگر صاحبِ دستار بہت کم"اسی طرح سے رومانوی شاعری کو ہمیشہ باطن کی جنگ سمجھا جاتا ہے مگر مزاحمتی شاعری کو معاشرے کی جنگ مگر امن کے سفیر شعرا ہوں کہ ادیب،سیاستدان ہوں کہ عوام، بیوروکریٹ ہوں یا مُلا اگر اِن میں امن ،وطن، انسانیت، خودداری اور عزت نفس سے سچی محبت جاگ اُٹھے تو یقین جانیں کہ ان کے دلوں میں" خود پرستی" ناپید ہو جائے گی اور امن کے سفیر کے اس فورم کا مقصد بھی یہی ہے۔لاڑکانہ کے پرنسپل جو کہ بائیس سال سے وہاں جلوہ افروز ہیں کی باتیں بہت پر اثر تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ 18کروڑ پاکستانی عوام میں آج ہال میں موجود ڈیڑھ سو افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن کا پیام جہاں جہاں جائیں وہاں پھیلاتے چلے جائیں۔۔۔ اب تو ہمیں وہ درس پھیلانا ہے جس کی خبر چودہ سو سال پہلے آئی تھی۔ جو ہمارے اسلاف نے باتیں کہیں ہماری زندگیوں کا سر چشمہ ہیں۔ جمعتہ الوداع کی جزئیات پہ غور کیا جائے تو ہم مُلا نہیں بنیں گے مومن بنیں گے۔کہ جیسے سچل سرمست فاروقی 12سال کی عمر میں حافظ ِ قرآن ہوئے اور دینی و دنیاوی رموزو اسرار سے نوازے گئے۔ تو انہوں نے کہا کہ....جس دل میں عشق ہے بس وہی دل ہےجس میں عشق نہیں وہ دل مٹی ہےاور یہ حقیقت تو ہم جانتے ہیں کہ درد سوزکے بغیر حق کی راہ نہیں ملتی۔ درد کے ساتھ ایک گدا گر بادشاہ ہو جاتا ہے اور بنا سوز کے ایک بادشاہ گداگر۔ ہمیں اس درد کا علمبردار بننا ہے۔ کہ ہم سب امن کے سفیر ہیں محبت کے پیامبر ہیں ۔ اس مٹی نے ہمیں اپنی آغوش میں لے کر اپنا فرض ادا کیا اب اس کا قرض ہمیں امن کا سفیر بن کر ادا کرنا ہے....چاک پیراہن کے سر میں اک سودا ہےدیوانہ ہے گر تو آشفتہ سر میں بھی ہوں