لیفٹ رائٹ جاری، لیفٹ اور رائٹ ختم


اس بار میں اسلام آباد میں صرف نوائے وقت کے دفتر گیا۔ وقت نیوز بھی اسی بلڈنگ میں ہے۔ برادرم جاوید صدیق سے لمبی نشست ہوئی۔ اس کے علاوہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ راولپنڈی کے صدر برادرم نعیم قاسم کے دفتر میں کچھ وقت گزرا۔ وہ مجھ سے پہلے لاہور پہنچے۔ نظریہ پاکستان کانفرنس میں سارے پاکستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ محبت کا چراغ دل میں جلائے ہوئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے جو پاکستان بھارت دوستی کا ڈھول پیٹنے والے لوگوں کو حواس باختہ کرتا ہے۔ آج کل گوادر پورٹ چین کو دینے سے بھارت میں کھلبلی ہے۔ پاکستان میں بھارتی لابی زیادہ پریشان ہے۔
ہماری فوج بھی ان حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جنرل کیانی کی آف دی ریکارڈ بریفنگ دلوں میں تو ریکارڈ ہوئی ہے۔ بھارت اندر ہی اندر سے پاک فوج سے ڈرتا ہے اور باہر باہر سے پاکستان سے ڈرتا ہے۔
جنرل کیانی نے فنڈامنٹلسٹ اور ایکسٹریمسٹ کے حوالے سے بہت گہری بات کی تو میڈیا کے لوگ اسے صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے لگے ہیں۔ جبکہ فنڈامنٹلسٹ تو یہودی عیسائی اور ہندو بھی ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے۔ ہندو بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف انتہا پسندی دکھاتے ہیں۔ اس کی طرف کوئی دھیان کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان میں جو کچھ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے۔ میں اس کے حق میں نہیں مگر اسے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اپنے مطلب کے لئے استعمال کرنا بھی انتہاپسندی ہے۔ پازیٹو طریقے سے انتہا پسند ہونا کوئی بری بات نہیں۔ میں انتہا پسند ہوں اور میں ابتدا پسند بھی ہوں۔ فتوے مذہبی لوگ ہی نہیں لگاتے انٹی مذہب بھی کم ”مولوی“ نہیں ہیں۔ مسلمان تو ہوتا ہی سیکولر ہے۔ ”دین میں زبردستی نہیں“
تیرے لئے تیرا دین میرے لئے میرا دین“ دین مذہب سے آگے کی چیز ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو خدمت خلق اور فلاح و بہبود کی منزلوں کی طرف جاتا ہے۔ یہ وہ منزل ہے کہ آدمی راستوں میں ہی رہتا ہے۔ راستہ منزل بن جاتا ہے۔ کچھ دوست سیکولرازم کو انٹی دین کے طور پر لیتے ہیں۔ یہ صرف لینے والے ہیں۔ اب تک لیفٹسٹ ہیں جبکہ لیفٹ اور رائٹ ختم ہو چکا ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ پاک فوج کی لیفٹ رائٹ بھی ختم ہو جائے مگر پاکستان میں عسکری سفر جاری رہے گا۔ ہم تو رائٹ اور رانگ کے قائل ہیں۔ رائٹ حق ہے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حق وہی ہے جو ہمارے حق میں ہے۔ اس کے لئے بنیادی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز چلاتے ہیں اور باہر کی کمائی مفت میں کھاتے ہیں۔ جنرل کیانی کی محفل میں جو قلم دئیے گئے وہ سبز تھے۔ اس بات کے بھی معانی نکالے جاتے رہے۔ ایک سرخا نما میڈیائی دانشور نے اعتراض کیا یہ تو سبزوں کی محفل ہے۔ ایک دفعہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی بات جنرل کیانی نے کی تھی تو کئی لوگوں نے منہ بنائے تھے۔ جنرل کیانی اول و آخر پاکستانی ہیں۔ جنرل کیانی نے خاص طور پر نوائے وقت کے لئے پوچھا۔ پاکستان بن ہی گیا ہے تو اس کی حفاظت کریں۔ اسے اپنا ملک بنائیں۔ آپس میں لڑنے سے کیا ہو گا۔ دہشت گرد غریب اور کمزور لوگوں کو مارتے ہیں تو کیا یہ مسلمان ہیں؟ دہشت گردوں کو بھارت اور امریکہ استعمال کر رہے ہیں۔
جہاں پہلے آ کے جنرل کیانی بیٹھے تھے وہاں وہ سب کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ وہ اصلی صدارتی کرسی پر چلے گئے اور ان کی سیٹ پر نسیم زہرا بیٹھ گئیں۔ اس پر بھی ایک دوست نے بات کی جو میں نسیم کو نہیں بتاﺅں گا۔ طویل بات چیت کے بعد کھانے کی میز پر جنرل کیانی کے ساتھ میرے نام کی چٹ نجم سیٹھی نے اپنی جیب میں ڈال لی اور خود بیٹھ گئے۔ یہ بات ان کی چڑیا نے مجھے بتائی کہ اب وہ ان کی جیب میں نہیں رہ سکتی تھی۔ چڑیا خوفزدہ ہو کر سارے کمرے میں اڑتی رہی۔ جنرل کیانی نے دو لفظ کثرت سے استعمال کئے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن اور سول وار۔ اس بار یہ دونوں کیا لازم ملزوم ہیں جیسے ظالم و مظلوم ہوتے ہیں۔ جنرل صاحب روانی سے بولے فراوانی سے بھی بولے۔ یوں لگتا تھا کہ جو کچھ ان کے ذہن میں ہے وہی ان کے دل میں ہے۔ ان کے دل میں کچھ اور بھی ہے؟ وہ کسی کو معلوم نہیں۔ صدر زرداری کے دل میں بھی کچھ ہے جو کسی کو معلوم نہیں۔ بھٹو اور ضیاءدونوں مل کر وہ کچھ کر سکتے تھے کہ دنیا حیران رہ جاتی۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں صدر زرداری اور جنرل کیانی مل کر کچھ کریں کہ دنیا والے پریشان ہو جائیں۔ چین کو گوادر پورٹ کا کنٹرول دینے میں جنرل اور صدر نے مل کر ایک بڑا معرکہ کیا ہے۔ آنے والا وقت اسے یاد کرے گا اور ان دونوں کو بھی یاد رکھے گا۔ معاشی اور دفاعی کامیابی کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بہت دوست بلوچستان سے پاکستانی صحافی فصیح اقبال کو جنرل صاحب نے فصیح بخاری کہہ دیا تو ایک دبلا پتلا سا قہقہ گونج کے رہ گیا۔ شاید یہی اس پر تبصرہ تھا۔ میں نے کہا کہ سوات میں اتنی بڑی کامیابی کے بعد فوج بلوچستان میں بھی جائے۔ برادرم جاوید چودھری نے ”جملہ مارا“ کہ اجمل نیازی کو وہاں بھیج دو۔ میں نے جاوید سے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر شرط یہ ہے کہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ وہ اس طرح ہنس پڑا جیسے یہ ممکن نہیں۔ غالباً کاشف عباسی نے تیسری بار ایکسٹنشن کی بات کی جبکہ اس بات کا کوئی موقع نہ تھا۔ جنرل نے اتنا کہا کہ مجھے جو کام دیا گیا تھا وہ میں نے پوری ذمہ داری سے نبھایا۔ ایک من چلے نے کہا جنرل نے انکار نہیں کیا۔ میری رائے یہ ہے کہ پہلے سول انتظامیہ میں ایکسٹنشن کلچر ختم کرو۔ افسران تو ریٹائر ہی نہیں ہوتے۔ دو دفعہ سے زیادہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر شذیر بننا بھی سیاسی ایکسٹنشن ہے۔ آئین میں تیسری باری کے لئے ترمیم لائی گئی ہے۔ جو جرنیل حکومت میں آ جاتے تھے انہیں کون ایکسٹنشن دیتا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنرل کیانی کو ایکسٹنشن ملی تھی تو وہ کچھ کرتے؟ فوج مارشل لاءلگائے تو بھی غلط ہے نہ لگائے تو بھی غلط ہے۔ تو پھر غلطی کہاں ہے؟ سیاست میں ریٹائرمنٹ نہیں ہے جبکہ یہاں ریٹائرمنٹ بہت ضروری ہے۔ بار بار وہی لوگ آ جاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے صرف حکومت کرتے ہیں اور دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ جیسے حکمران ایکسٹنشن پر آ جاتے ہیں وہ نہیں آتے توگھر سے کوئی دوسرا آ جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن