5 سالہ جمہوری انتقام

Mar 01, 2013

مسرت قیوم

Legatum Prasperity نامی ایک عالمی ادارے کی جاری کردہ فہرست میں ”پاکستان“ کو دنیا کا چوتھا ”اداس ترین“ ملک قرار دیا گیا ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے غالب رجحانات کا جائزہ لینے والا ادارہ ہے۔ خوش رہنے والے ممالک میں قدر مشترک ”جمہوریت“ کو قرار دیا گیا ہے۔ اسکے ذریعہ حق حکمرانی عوام کو حاصل ہو جاتا ہے۔ اور روزگار، معاشی ترقی، شہری حقوق جیسے بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ وائے نصیب ہمارے ہاں نتیجہ بالکل الٹ ہے۔ ہم جمہوریت کے ہاتھوں دکھی ہیں اور جب سے جمہوریت نے بہترین انتقام کا روپ دھارا ہے ہمارے دکھ بڑھ کر اب ناسور بن چکے ہیں۔ انگریزی مقولہ ہے کہ ”سگریٹ کے ایک سرے پر آگ ہوتی ہے اور دوسرے سرے پر ایک نادان“ موجودہ خونیں صورتحال میں یہ مقولہ زیادہ تلخ صورت میں ہمارے دگرگوں قومی معاملات کی بابت حالات کی تصویر کشی کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے تو اداس ترین ممالک کی لسٹ میں پاکستان کے چوتھے نمبر پر درجہ بندی پر چنداں دکھ یا تکلیف محسوس نہیں ہو رہی بلکہ حیرت ہو رہی ہے کہ چوتھا نمبر کیوں؟ پہلا نمبر کیوں نہیں؟ جبکہ ہمارے پاس خوشی کے نہ تو سارے لوازم موجود ہیں اور نہ ہی خوش رہنے کی بنیادی ضروریات۔ اسباب .... پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ملک میں 30لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے مگر اس کے باوجود آٹے کی قیمت 45روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ خطرناک صورتحال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گندم کے وافر ذخیرے کے باوجود آٹا کی قیمت میں اضافہ کو روکا نہیں جا سکا۔ یہ ملک میں غذائی عدم تحفظ کی جانب اشارہ ہے۔ کیا یہ خبر ہمارے لئے خوشی کا موجب بن سکتی ہے کہ پچھلے ایک ماہ کے دوان معاشی حالات کے سبب 111افراد نے خود کشی کر لی۔ غربت احساس کمتری نہیں بلکہ ذلت ہے جو انسان سے انسانیت کا تقدس بھی چھین لیتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے مگر ہمارے ہاں ”سماجی انصاف“ کا ایک مستحکم نظام نہیں ہے۔ ہمارے لیڈروں کے وعدے ان کے عمل سے اتنے ہی دور اور ظاہری صورتوں، رویوں سے مختلف ہیں جتنے ہمارے خواب ہماری زندگی کے جاگتے لمحوں سے ماورا۔ عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ وفاق نے لوٹ کھسوٹ ظلم قبضہ گیری میں پانچ سال گزار دیے تو پھر یہ جو پورے پورے صفحے کے لمبے چوڑے منتخب کردہ سماجی و شوبز کرداروں کے ذریعے ترقی عوامی فلاح کے اشتہارات چھاپے جا رہے ہیں وہ کس بات کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کون سے علاقے ہیں جہاں دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیں تو فی الحال کراچی، سرحد اور بلوچستان میں خون بہتا ہوا ہی نظر آ رہا ہے صرف صوبہ پنجاب میں عوامی تعمیر و ترقی کے کام ہوئے ہیں تو نظر بھی آ رہے ہیں۔ بلاشبہ پنجاب میں انقلابی میگا پراجیکٹ کا سہرا میاں محمد شہباز خادم اعلیٰ پنجاب کو جاتا ہے۔ ناقدین کے سامنے یہ نکتہ اٹھایا کہ وفاقی حکومت کے کریڈٹ پر بھی تو اچھے کام، اقدامات ہیں۔ مثلاً گیس پائپ لائن ایران معاہدہ، گوادر پورٹ کی چین کو حوالگی، یہ دونوں کام مستقبل میں ہماری معاشی و خارجہ پالیسی کے سدھار میں مدد دیں گے اور مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ بات الفاظ کی جنگ سے عملی صورت میں آتی دکھائی دیتی ہے۔ سوال اٹھا کہ عملی صورت میں ڈھلنے کا نتیجہ سانحہ کوئٹہ ہی بنا۔ سانحہ ہزارہ ٹاﺅن نے بیحد غمگین اور مغموم کر رکھا ہے۔ چار دن کے دھرنا کے بعد 90لاشوں کی تدفین.... کیا اب ہر المیہ کے بعد دھرنا ہی مسئلہ کے حل کی کنجی ٹھہرا ہے۔ چالیس دنوں میں دوسری مرتبہ ہزارہ قوم کا وحشیانہ قتل عام۔ لگتا ہے ہم کسی اسلامی ملک کے باشندے نہیں بلکہ کسی مفتوحہ ملک کے غلام ہیں۔ ہمارے اداروں کو بھی اب ہم پر وار کرنے (کھلا یا چھپا ہوا) والوں کو رگڑ دینا چاہئے۔ اب بھی وفاقی وزیر کا بیان پڑھا کہ فلاں فلاں شہروں میں مزید دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ قیادت کا کام یہ نہیں کہ نظام کی خرابیوں کی صرف نشاندہی کر کے فارغ ہو جائے بلکہ اصل ذمہ داری یہ ہے کہ مسائل کا ماہرانہ انداز میں حل نکالے۔ سانحہ کوئٹہ کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں بلکہ بطور پاکستانی ہم سب کی ناکامی ہے۔ ہم اخلاقیات سے عاری ایک مجرمانہ ذہنیت والی سوچ کو پروان چڑھانے کا خود سے ہی سبب بن رہے ہیں۔ نہیں سوچنے کو تیار کہ ہمسایہ کے گھر میں لگی آگ کل کلاں ہمارے گھر کی دیواریں بھی چاٹ سکتی ہے جس طرف بھی نظر ڈالیں قتل و غارت گری، دھماکے، دھرنے، ڈاکے .... آپ خود ہی بتائیے کہ ان میں سے کونسی خبر خوشی کا موجب بن سکتی ہے۔ بے چینی، اداسی گھریلو جھگڑوں کا باعث بن رہی ہے۔ اکثریت معاشی گرداب کا شکار.... کیا یہ سب ایک متوازن معاشرے کی تصویر ہو سکتی ہے؟ پاکستان ایک تیزی سے اپنا توازن کھوتا ہوا معاشرہ بنتا جا رہا ہے۔ اب تو یقین ہو چلا ہے کہ ہم ایک جاہل اجڈ، وحشی جنگل کے باسی ہیں کہ جس کا جب جی چاہے اصلاحات کے نام پر ڈرامہ بازی کر کے ملک کو پورے ہفتہ کیلئے مفلوج کر دے۔ جس کا جی چاہے بھتہ وصولی کے نام پر درجنوں لوگوں کو بھون کر رکھ دے۔ مسلک، عقیدے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ دراصل کسی دوسرے مسلک یا عقیدے کے خلاف نہیں بلکہ یہ ذاتی و گروہوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے جاری لڑائی کا تسلسل ہے۔ سازشی عناصر منقسم ضرور ہیں مگر ہدف سب کا ایک ہے.... لالچ طمع، نااہلی، سب نے مل کر عوام الناس کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بے بسی کے آخری سرے پر پہنچی ہوئی مخلوق کی فریاد اب اللہ تعالیٰ ہی سنیں گے۔ مجھے دکھ یا تکلیف نہیں بلکہ حیرت ہو رہی ہے کہ اداس ترین ممالک کی فہرست میں ہمارا چوتھا نمبر کیوں؟ پہلا نمبر کیوں نہیں؟ 

مزیدخبریں