یہ 1987 ءکی ایک شام کا واقعہ ہے ہمارے گھر میں ایک کباب پارٹی تھی۔ ابو(اشفاق احمد) کے کچھ دوست احباب موجود تھے۔ گھر کے پچھلے لان میں ریاض چچا(ریاض محمود) سیخ کباب لگا رہے تھے۔ ساری فضاء کبابوں کی اشتہا انگیز خوشبوسے مہک رہی تھی۔ اس طرح کی گھریلو پارٹیوں میں لوگ عموماََ بڑی خوش دلی سے کھاتے بھی ہیں اور گپ شپ بھی چلتی رہتی ہے۔ لیکن 87 ء کی وہ شام میرے لےے بڑی اداس تھی۔ کباب ہمےشہ کی طرح بہت اچھے بنے تھے۔ اُن مےں رےاض چچا کے ہاتھوں کا ذائقہ بھی تھا اور تمام مصالے بھی پورے تھے۔ لےکن پھر بھی سب کچھ پھےکا پھےکا لگ رہا تھا۔بات دراصل ےہ تھی کہ اُس شام سے اےک روز پہلے ہم کرکٹ کے ورلڈکپ کا سےمی فائنل ہار گئے تھے۔ اس ہار نے مجھ سمےت پارٹی مےں موجود سب لوگوں کی طبےعت کو بڑا بوجھل کر دےا تھا۔ کپتان نے آخری اوور شائد سلےم جعفر کو دے دےا تھا۔ فائنل مےچ کے پرےشر مےں آکر ےا کسی اور وجہ سے کپتان ےہ بھول گےا ےا اسے ےاد نہےں رہا کہ کسی سےنئر باﺅلر کا بھی اےک اوور ابھی رہتا تھا۔ اگر کپتان سے ےہ بھول نہ ہوئی ہوتی تو مےچ کا نتےجہ مختلف بھی ہو سکتا تھا ےعنی ہماری ہار ہماری جےت مےں بھی بدل سکتی تھی۔ مےں انتظار چچا(انتظارحسےن) اور عےنی آپا(قراة العےن حےدر) کی طرح ماضی پرست ہر گز نہےں ہوں لےکن پتہ نہےں کےوں جب مےں باﺅلنگ سے متعلق عمران کے بےانات دےکھتا ہوں تو مجھے 87ءکی وہ اداس شام ضرور ےاد آجاتی ہے اور اس کے گرد جمع ہونے والے تمام لوگ ورلڈکپ کے سےمی فائنل کے آخری اوور کی ےاد ضرور دلاتے ہےں جس کی وجہ سے مےچ ہار گئے تھے۔ ہار جےت تو کھےل کا حصہ ہوتی ہے لےکن انسانی فےصلے کس طرح اس کے مقدر پر اثر انداز ہوتے ہےں ےہ بات فراموش نہےں کی جا سکتی ۔ جب مےرے احباب مجھ سے کہتے ہےں کہ کپتان کے اردگرد چلے ہوئے کارتوس جمع ہو گئے ہےں تو مےری رائے ان سب سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ باﺅلنگ کرتے ہوئے جب بھی کسی باﺅلر کا مسل پل ہو جاتا ہے۔ تب وہ مےدان چھوڑ کر ڈرےسنگ روم مےں چلا جاتا ہے ۔ وہاں موجود ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہمےشہ فاسٹ باﺅلروں کے مسل پل ہوتے آئے ہےں۔ کبھی کسی سپن باﺅلر کو انجری سے کم ہی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مےں اپنے احباب کو رائے دےتے ہوئے کہتا ہوں ”مانا کہ کپتان کے پاس تجربہ کار کھلاڑےوں کی تعداد زےادہ نہےں ہے برادر اسحق خاکوانی اور طارق چودھری کو چھوڑ کر باقی بہت سے پلےئر فالج زدہ اور لقوے کے مارے ہوئے ہےں لےکن کےونکہ ہمارا کپتان کھےل کا بہت وسےع تجربہ رکھتا ہے اس لےے اس نے کچھ ماہر ڈاکٹروں سے مسلز کے علاج واسطے چند ناےاب نسخے بھی حاصل کر رکھے ہوں۔ ان نسخوں سے وہ مالش کا اےک خاص تےل بنانے مےں ضرور کامےاب ہو جائے گا کہ جس کی مالش سے فالج زدہ کھلاڑےوں کے تنِ مردہ مےں پھر سے جان پڑ جائے گی۔ مےری ےہ بات سن کر مےرے احباب کہتے ہےں ”کہ کپتان صاحب کو اپنے کسی عوامی جلسے مےں مالش کے تےل کا صدری نسخہ عوام کو بھی بتادےنا چاہےے ۔ جب مےں نے ان سے پوچھا کہ ”وہ کس لےے؟“تو جواب آےا”وہ اس لےے کہ بھئی ہمارے عوام کو بھی اس قسم کے مالشی تےل کی بہت اشد ضرورت ہے ملکی حالات نے عوام کو اےک اےسا اعصابی مرےض بنا کے رکھ دےا ہے جو تقرےباََ چلتی پھرتی لاش معلوم ہوتی ہے اس لےے جب عوام اپنے کپتان کا اےجاد ےا درےافت کےا ہوا تےل استعمال کرےں گے تو پھر ان کے اعصاب اس قدر مضبوط ہو جائےں گے کہ وہ جعلی ڈگری والوں کو ووٹ نہےں دےں گے اور سارے ووٹ پکے ہوئے پھل کی طرح تحرےکِ انصاف کی جھولی مےں آگرےں گے۔ اور ہاں عوام کی اعصابی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگا ےا جا سکتا ہے کہ پہلے وقتوں مےں عوام اےسے لوگوں سے اپنی قسمت کا حال معلوم کےا کرتے تھے جو بے چارے خود کسی فٹ پاتھ پر بےٹھے ہوا کرتے تھے۔ اب عوام مےں اتنی سکت بھی باقی نہےں رہی کہ وہ گھر سے نکل کر کسی فٹ پاتھ کا رُخ کر سکےں اب تو وہ گھر بےٹھے ہی مختلف ٹی وی چےنلوں پر موجود نجومےوں سے اپنی قسمت کا حال سنتے رہتے ہےں ۔سےاسی ٹی وی ٹاک شوبھی نجومےوں کے لکھے ہوئے ہی معلوم ہوتے ہےں۔بات ہو رہی تھی کپتان بھائی کی وےسے تو ہمارا کپتان بہت سی خداداد خوبےوں کا مالک ہے۔ ہمےشہ سچ بولتا ہے، روپے پےسے کا کوئی لالچ نہےں رکھتا ۔ بہادری اور شجاعت مےں اس کا کوئی ثانی نہےں ہے(لشکرِ جھنگوی کے بارے مےں بےان کسی بزدل لےڈر کا کام ہو ہی نہےں سکتا)ہر قسم کے سخت حالات کا مقابلہ کرنی کی پوری صلاحےت اس مےں موجود ہے۔ عوامی ہمدردی اس کے دل مےں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کبھی کسی کام کو ادھورا نہےں چھوڑتا۔ بس اےک ہی خامی اس مےں دکھائی دےتی ہے کہ بندوں کو پہچاننے مےں کافی کمزور واقعہ ہوا ہے۔ اگر کہےں وہ کھرے کھوٹے مےں فرق کرنا جانتا تو پارٹی کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی بڑا بھلا ہو جاتاہے۔بہرحال اس کی اس بشری کمزوری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اےک صدری نسخہ ہم بھی اس کی خدمت مےں پےش کےے دےتے ہےں ۔ ہمارے خےال کے مطابق کپتان بھائی کو اپنے مےڈےا اےڈوائز کو ےا تو تبدےل کرنا پڑے گا ےا پھر اس پر اچھی خاصی محنت کرنے کی ضرورت ہے آپ تو وےسے بھی بہت محنتی آدمی ہے اور محنتی لوگ کام کرنے سے کبھی جی نہےں چُراتے۔ وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ دےوانہ وار کام کرنے کی بجائے عقل و شعور سے معاملات کو سمجھا اور پرکھا جائے۔ ہمارے نسخے کے مطابق مےڈےا اےڈوائزری کچھ اس انداز کی ہونی چاہےے جےسے شہباز شرےف نے مےٹروبس کی تشہےر مےں استعمال کی ہے۔ ےہ بات تو سب ہی جانتے ہےں کہ کسی بھی حکومتی پارٹی کے پاس کوئی اےسا لائق بندہ نہےں ہوتا جو اس کی کار گزاری کو بہتر انداز مےں عوام کے سامنے لا سکے۔ شاےد حکومتِ وقت کوکسی اےسے بندے کی ضرورت ہوتی بھی نہےں ۔ انھےں تو اےسے کارےگر کی ضرورت ہوتی ہے جو انھےں کمائی کرنے کی سکےمےں بنا کر دےا کرے۔ شہباز شرےف نے بڑی عقل مندی کرتے ہوئے مےڈےا اےڈوائزری کسی کارکن کے حوالے نہےں کی بلکہ اپنے پاس رکھی ۔ اگر کہےں وہ ےہ کام کسی کارکن کے سپرد کر دےتے تو شاےد لاہورےوں کو بھی پتہ نہ چلتا کہ فےروزپور روڈ پر کوئی مےٹروبس چلائی جا رہی ہے۔ ان کی اس کامےاب حکمتِ عملی کی بنا پر اب پورا پاکستان لاہور مےں مےڑوبس کو چلتا ہوا دےکھ بھی رہا ہے اور اس سے آگاہ بھی ہے۔ کچھ دل جلوں کو ےہ کہتے سنا گےا ہے کہ ن لےگ تو صرف پنجاب کی پارٹی ہے۔ اےسے مےں ماجد جہانگےر کے بےان کے بعد کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ن لےگ نے اس تاثر کو غلط ثابت کےا ہے کہ وہ صرف اےک صوبے کی پارٹی ہے۔ہم سمجھتے ہےں کہ عوام کا ووٹ اےک امانت ہوتا ہے اور اس قےمتی امانت کو خےانت سے بچانے کا اےک ہی طرےقہ ہے کہ الےکشن سے پہلے الائنس بنائے جائےں۔سےدھی اور صاف شفاف بات ےہ ہے کہ سےٹ اےڈجسٹمنٹ ےا الانس (ہم خےال جماعتوں کے ساتھ اتحاد) ہم خےال کوئی بھی نہےں ہوتا بس ےار لوگوں نے اےک ممکنا حد تک سمجھوتے کو ہی ہم خےالی کا نام دے رکھا ہے۔ اس سمجھوتے ےا اتحاد کے رستے مےں بہت سی دشوارےاں اور کئی قسم کی رکاوٹےں حائل ہوں گی۔ لےکن ہم آپ کے سامنے صرف اےک مثال رکھتے ہےں وہ ےہ کہ اگر آپ سرسری طور پر بھی اس بات کا جائزہ لگائےں کہ سندھ مےں کرپشن کا کےا لےول جا رہا ہے اور پنجاب کی سطح پر کتنی کرپشن ہو رہی ہے تو باآسانی معلوم ہو جائے گا کہ پنجاب کی پوزےشن اس حوالے سے کافی بہتر ہے ۔ ہمارے خےال مےں کسی بھی دو پارٹےوں مےں ممکنا اتحاد کے لےے اتنی بات بھی بڑا وزن رکھتی ہے۔ اےک اور بات بڑی ضروری ہے کہ ےہ سمجھوتہ ےا اتحاد الےکشن سے پہلے ہونا چاہےے کےونکہ الےکشن کے بعد الائنس نہےں بنتے سےدھے سےدھے بولی لگتی ہے جےسے منڈیوں مےں لگا کرتی ہے۔ن لےگ اس وقت فاسٹ باﺅلنگ کر رہی ہے اس نے اےک گےند مےں گےارہ گےارہ وکٹےں حاصل کرنا شروع کر دےں ہےں۔ عمران بھائی سے ہماری گزارش ہے کہ اگر منور حسن صاحب ن لےگ کے ساتھ سےٹ اےڈجسٹمنٹ کی بات کر سکتے ہےں تو آپ کےوں نہےں؟ مقابلہ کرنا اور بات ہے؟ خرےداری اےک دوسری چےز ہے۔ اگر آپ ن لےگ کی طرف ہاتھ نہےں بڑھائےں گے تو اس کا اےک ہی مطلب ہے کہ آپ منڈی لگا نے والوں کو دعوتِ عام دے رہے ہےں۔ آپ نے خرےداری کا رستہ بھی روکنا ہے اور مقابلہ بھی کرنا ہے ۔ چاہے ےہ مقابلہ سےٹ اےڈجسٹمنٹ کرکے ہی کےوں نہ کرنا پڑے۔ آپ ےہ کام بلاشبہ کرسکتے کہ آخر عوامی نمائندوں کی بھی اےک عزتِ نفس ہوتی ہے اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی اےک ہی صورت ہے کہ آپ کسی طرح منڈی لگنے سے روکےں۔ اس کے لےے کسی بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہےں بلکہ صرف معاملہ فہمی سے کام بن سکتا ہے ۔ ہمارے خےال مےں اگر آپ کی دانش مندی اور ن لےگ کی فاسٹ باﺅلنگ اےک ہو جائے تو آپ جس سےاسی مےچ کو جتنے کے اُمےدوار ہےں اس کا آخری اوور اگر ن لےگ کو دےا جائے تو اس کی جارہانہ فاسٹ باﺅلنگ سے اس سےاسی مےچ کے نتائج عوام کے حق مےں بہت بہتر ثابت ہوسکتے ہےں۔ پھر ہم سب عوام کی جےت کی خوشی مےں اےک اور کباب پارٹی کرےں گے اب ابو توہمارے درمےان نہےں ہوں گے البتہ رےاض چچا پہلے کی طرح ہمےں اپنے ہاتھوں کے خوش ذائقہ کباب ضرور کھلائےں گے۔ہم سب کے لےے وہ شام ےقےنا اداس نہےں ہو گی۔