سہ روزہ سالانہ نظریہ پاکستان کانفرنس کے دوسرے روز پانچویں اور چھٹی نشستیں انتہائی فکر ا نگیز اور ملک وقوم کی محبت سے سرشار خطابات سے عبارت تھیں۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ سابق وزائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے ان نشستوں کی صدارت کی۔ مجید نظامی تھوڑی دیر کیلئے یکے از حاضرین بیٹھے رہے۔ پہلے خطاب کا موضوع ”پاکستان کا روشن مستقبل“ تھا جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے صاحبزادہ سلطان احمد علی آف حضرت سلطان باہوؒ نے کہا کہ وطن عزیز کے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعتیں اپنے فکر و عمل پر نظر ثانی کریں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو پھر پاکستانی عوام آگے بڑھ کر ملک کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ تب مذہبی و سیاسی جماعتوں کے زعماءموجودہ عزت و تکریم سے محروم کر دیے جائیں گے۔ اگر وہ ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی اور تفرقہ بازی کے خاتمے کی خاطر اپنے مسالک کو قربان کرنے پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں تو ٹھیک وگرنہ عوام خود یہ فیصلہ کریں گے کہ کون قابل تعظیم ہے اور کون نہیں؟ اس طرح سیاسی جماعتوں کو بھی نظریہ¿ پاکستان اور ملک و قوم کی بقائ، سلامتی اور استحکام کے حوالے سے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں ملک اور عوام کے مفاد کو نظر انداز کر کے محض اقتدار کے کھیل میں مشغول رہیں تو عوام ا نہیں کسی طور برداشت نہ کریں گے۔ دین اسلام اور پاکستانی قوم کا روحانی جذبہ ہی ملک کے روشن مستقبل کی اساس ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹرفرید احمد پراچہ نے ”بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کے خلاف عدالتی کارروائی“ کے موضوع پر پر جوش تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ تو ہم سے بڑھ کر پاکستانی تھے اور یہ دنیا کا واحد ملک تھا جس کے دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اوریہ حصے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر متحد تھے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے 5لاکھ فوج مشرقی پاکستان میں داخل کر کے ہمارے اس بازو کو ہم سے الگ کر دیا۔ اس جنگ میں جن لوگوں نے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کی خاطر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا‘ آج 41سال گزرنے کے بعد انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا والدشیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بڑے کرداروں میں سے ایک تھا۔ غداری کا مرتکب تو شیخ مجیب الرحمان تھا مگر اسکی بیٹی آج محب وطن پاکستانیوں کو غدار قرار دے کر موت اور عمر قید کی سزائیں دلا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل تشکیل دیا گیا ہے جس کے سامنے متحدہ پاکستان کے حامیوں کے خلاف ایسے گواہ پیش کیے جا رہے ہیں جو 1971ءمیں خود بالکل بچے تھے۔ اس ناانصافی پر نہ صرف ترکی کے وزیراعظم نے شدید احتجاج کیا ہے بلکہ دیگر اسلامی ممالک نے بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے مگر پاکستانی حکومت نے اس معاملہ پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے حکمرانوں اور میڈیا کو ان لوگوں کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے جنہوں نے متحدہ پاکستان کی بقاءکی خاطر افواج پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔فرید پراچہ نے کہا کہ جناب مجید نظامی کی قیادت میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ جس جانفشا نی اور مستقل مزاجی کے ساتھ وطن عزیز کے اساسی نظریے‘ وقار اور بقاءکی جنگ لڑ رہا ہے‘ اس پر میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ میرے نزدیک تو پاکستان کا نظریہ اور جغرافیہ ہنوز نامکمل ہےں۔ نظریہ¿ پاکستان تب تکمیل پذیر ہوگا جب یہاں اسلامی نظام نافذ ہوجائے گا اور جغرافیہ تب مکمل ہوگا جب کشمیر کا اس کے ساتھ الحاق ہو جائے گا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے” معاشرے میں اعلیٰ اسلامی و اخلاقی اقدار کی ترویج میں خواتین کا کردار“ کے موضوع پر اپنے خطاب کے آغاز میں بتایا کہ انہوں نے متعدد مرتبہ اپنے والد قاضی حسین احمد مرحوم کو جائے نماز پر محترم مجید نظامی کی صحت اور درازی¿ عمر کے لیے دعا مانگتے سناکیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس ملک میں نظریہ¿ پاکستان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ میرے والد مجھ سے کہا کرتے تھے کہ اپنے عورت ہونے پر فخر کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ِ تخلیق پوری کائنات میں صرف عورت کو بخشی ہے۔ ہماری خواتین کو قرآنی تہذیب کے غلبے کی جدوجہد کرنا چاہیے اور اپنی اولاداور خاندان کو یہ باور کرانا چاہیے کہ انہیں تہذیب حاضر کے چیلنجز کے مقابلہ کے لیے قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔پروفیسر ڈاکٹرمحمد اجمل نیازی نے ”الیکٹرانک میڈیا پر بھارت کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟“کے موضوع پر انتہائی دلچسپ اور جامع انداز میں اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدنے قراردادیںپیش کیں جن کی حاضرین نے بھر پور تائید کی۔ ٹرسٹ کے فنانس سیکرٹری میاں فاروق الطاف نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ قبل ازیں ملک بھر میں قائم نظریہ¿ پاکستان فورمز کے عہدیدران نے بھی خطاب کیا۔دونوں نشستوں کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ادا کیے۔گزشتہ روز کی طرح آج بھی لاہور کے ڈی سی او جناب نور الامین مینگل کی ہدایت پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی طرف سے کانفرنس کے شرکاءکے لیے پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔