کراچی جشن ادب کے چند دنوں بعد ہی 23 اور 24 فروری کو لاہور جشن ادب کا اہتمام پاکستان کی ادبی اور ثقافتی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے نہایت اہم اور کڑے دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف حکومتی بد عنوانیوں، توانائی کے بد ترین بحران اور آنے والے انتخابات کے سلسلے میں طرح طرح کی بد گمانیوں کی فضا ہے اور دوسری طرف انسانی خون اس ارزانی سے بہ رہا ہے کہ لگتا ہے پانی سے بھی سستا ہے۔ جس دن کراچی میں لٹریری فیسٹول کا آغاز ہوا، اسی دن کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے اسی سے زیادہ افراد لقمہءاجل بنے ۔کراچی میں روزانہ دس بارہ اموات معمول کی بات ہیں۔ ایک طرف ثقافتی سرگرمیاں اور دوسری طرف موت کا بھیانک رقص، واقعی ہم ایک ’نئے پاکستان ‘ میں زندہ ہیں ۔کراچی کے جشن ِ ادب میں ایک ادیب نے کہا کہ اگر ہزارہ برادری جیسا واقعہ کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو تمام ثقافتی، سیاسی، معاشی سرگرمیاںاس کے سوگ میں معطل ہوجاتیں مگر ہمارا خیال ہے کہ صرف اس ملک میں جہاں انسانی جان کی حرمت کا احساس حکومت اور عوام دونوں کو یکساں ہو اور دونوں اس کے تحفظ کے سلسلے میں یک سو ہوں۔ اردو کے خدائے سخن میر نے کہا تھا کہ :موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لےکر، جبکہ یہاں یہ عالم ہے کہ زندگی ماندگی کا بس مختصر وقفہ بن گئی ہے اور کوئی دم جاتا ہے کہ ہزاروںکا دم نکلتا ہے۔ ایسے میں آدمی ہر دم نوحہ خواں رہے یا اس صورتِ حال کو بدلنے کی سعی کرے۔ ہمارے خیال میں ادبی جشن اس الم ناک صورتحال کو بدلنے کی اپنی سی سعی کرتے ہیں۔ سماج میں فوری تبدیلی تو سیاست لاتی ہے،ادب تو رفتہ رفتہ تبدیلی لاتا ہے۔23 فروری کے دن لاہور کی ٹھنڈی سڑک جاتے ہوئے سرما کی بارش میں بھیگی ہوئی تھی ۔اسکے پہلو میں موجود سرخ پتھروں کے نمونہ جمال،الحمرا میںنوجوانوں،بزرگوں، خواتین کا اژدھام تھا۔بارش نے ادب و ثقافت سے محبت کرنے والوں کا راستہ نہیں روکا۔ منتظمین نے الحمرا کی عمارتوں کو خوب صورت بینروں ست سجایا ہوا تھا۔ مگر اصل رونق ہال نمبر ایک اور دو میں تھی جہاں دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے ادیب، شاعر، دانشور اپنے تجربات و خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ پہلے روز انیس کے قریب پروگرام ترتیب دیے گئے تھے۔ گویا منتظمین نے کوشش کی تھی کہ دن کا کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہو۔ صبح ساڑھے نو بجے سے رات کے کوئی دس بجے تک گفتگوئیں، مذاکرے، مشاعرہ، قرا¿ت، ادب اور رقص تھا۔ پہلے روز جن لوگوں نے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ان میں طارق علی، حمید ہارون، دانیال محی الدین، ایبا کوش،ایچ ایم نقوی،شہان کراﺅ نتالیکا، اوون بیننٹ جونس، ندیم اسلم، ڈیکلن والش، چکی سرکار، مشرف علی فاروقی، عائشہ جلال، فرانسس روبننس، محمد حنیف، شہزاد ایک حیدر، محمود جمال، رضا رومی، ہارون خالد، انعم زکریا، بپسی سدھوا، انتطار حسین، بشارت پیر، مونی محسن، امین جعفر، افضال احمد سید،نوید شہزاد، زہرا نگاہ، سلمیٰ دباغ، قدسیہ مرزا، علی دیان حسن، راشد رانا، نازش عطاءاللہ،سلیمہ ہاشمی،ثمینہ رحمان اور چند دوسرے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں نے جن موضوعات پر اظہار ِخیال کیا وہ خاصے دل چسپ اور فکر انگیز تھے، مثلاً معروف ترقی پسند طارق علی سیاست اور ثقافت :ماضی و حال کے موضوع پر گفتگو کی۔ انکا خیال تھا کہ پاکستان میں کوئی فرقہ کسی دورے فرقے کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔ یہ ایک اچھا خیال تھا، مگر حاضرین میں سے کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو ایک خاص مذہبی شناخت کے لوگوں کو بار بار کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک اہم موضوع ’پاکستانی ادب کی عالم کاری‘ تھا۔یہ ایک نیا موضو ع تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں انگریزی فکشن کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔ آج پاکستان کے تمام معروف انگریزی ناول نگار گزشتہ دس برسوں ہی میں سامنے آئے ہیں۔ انکے موضوعات بھی مابعد نائن الیون صورتِ حال ،جسے پاکستان بھگت رہا ہے، ہے۔ اس تناظر میں ایک تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستانی ادب سے مراد پاکستان انگریزی ادب لیا جانے لگا ہے۔ کراچی فیسٹول میں اوراس کے بعد کچھ سنجیدہ اہلِ نظر نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا پاکستانی انگریزی ادب ،پاکستانی ثقافت کا حقیقی ترجمان ہے؟ یہ سوال شاید ا س لیے اٹھایا گیا کہ اردو ادیبوں کو ناول لکھتے ہوئے عمریں گذر گئیں، مگر ان کو وہ شہرت اور اہمیت نہ مل سکی جو نئے انگریزی لکھنے والوں کو راتوں رات مل گئی۔ کیا اردو ناول پاکستانی ثقافتی روح کو پیش کرنے میں ناکام تھاَ ہمارا خیال ہے کہ آنےوالے برسوں میں اس موضوع پر کافی گفتگو ہوگی تاہم لاہور ادبی فیسٹول میں جب انگریزی ادب کے تناظر ہی میں اس کی عالم کاری کو سوال زیرِ بحث لایا گیا تو اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں کے فکشن کو حاشیے پر دھکیل دیا گیا۔ یوں بھی اس جشنِ ادب کی مجموعی زبان انگریزی تھی۔ ممتاز ناول نگار ولیم ڈلرمپل نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ یہاں اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ان پر گفتگو برائے نام ہے۔ فیض اورزہرا نگاہ کی شاعری کو ضرور موضوع بنایا گیا،مگر وہ بھی اسلئے کہ انکی شاعری انگریزی میں ترجمہ ہوچکی ہے۔بہرکیف اس روز ایک اور موضوع پر نہایت گرماگرم بحث ہوئی۔ کیا پاکستان ایک جدید ملک ہے؟ اس گفتگو میں طارق علی، عائشہ جلال اور فرانسس روبنسن نے حصہ لیا۔ عائشہ جلال نے کہا کہ ریاست کو مذہب کے معاملے میں غیرجانبدار ہونا چاہئے۔ مذہب الگ چیز ہے اور ریاست الگ۔پاکستان کے تناظر میں یہ ایک بے حد نازک بحث تھی کیونکہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، اسکی تہہ میں مذہب کو ریاست کے معاملات میں مرکزی حیثیت دینے کی جد وجہد بھی شامل ہے۔ظاہر ہے جدید ملک کا یہ تصور مغربی ہے۔ مغرب نے اپنی جدیدیت کا آغاز ہی مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کی صورت میں کیا تاہم عائشہ جلال کی ا س بات پر سب کو سوچنے پر مجبور کیا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو مذہب پر گفتگو کرنی چاہیے ۔آج مذہب پر وہ لوگ بات چیت کرتے ہیں جو اسکو نقصان پہنچا رہے ہیں اور پڑھے لوگ مذہب کا علم ہی حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ طارق علی کا بھی یہی خیال تھا کہ مذہب کو حکومتی معاملات سے الگ رکھنا چاہئے، نیز انہوں نے طبقاتی نظام، جاگیرداریت وغیرہ کو بھی پاکستان کی پسماندگی کی وجہ قرار دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کی بھر پور مذمت کی۔ اس بحث سے یہی نتیجہ سامنے آتا تھا کہ پاکستان ایک جدید ملک نہیں ہے تاہم اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ اس وقت پاکستان گزشتہ پچاس برسوں کے مقابلے میں ترقی کی راہ پر ہے۔گویا ایک امید کی ننھی سی شمع جلانے کی کوشش کی گئی۔اسی روز ندیم اسلم نے اپنے نئے انگریزی ناول ”اندھے آدمی کا باغ“ پر گفتگو کی۔ ادب میں طوائف کے موضوع پر بھی مباحثہ ہوا۔یہ خاصا دل چسپ مباحثہ تھا۔ اس میں کنجری اور طوائف میں امتیاز قائم رکھنے کا تصور پیش کیا گیا۔نوید شہزاد نے لوگوں کو یہ کہ کر چونکایا کہ اردو ادب میں طوائف اور پہلوان کا کردار میں مماثلت ہے۔ یعنی دونوں’فن کار‘ ہیں او ر حریف کو پچھاڑنے کیلئے داﺅ پیچ سیکھتے ہیں۔ اسی طرح حاضرین اس بات پر بھی خوب حیران ہوئے کہ سر سید جیسا عظیم مسلما ن مصلح بھی ایک زمانے میں طوائف کے کوٹھے پر جاتا تھا۔ معلوم نہیں اس بات سے محض چونکانا مقصود تھا یا طوائف کے کردار کی ہمہ گیریت کا کوئی تصور واضح کرنا مقصود تھا۔ اسی روز ادب اور مزاحمت پر بھی بات چیت ہوئی اور قومی بیانیوں پر بھی گفتگو ہوئی۔ رات کو مشاعرہ تھا۔ اگرچہ اپنی طرز کا نیا مشاعرہ تھا جس میں موسیقی، افسانہ کی قرا¿ت بھی شامل تھی۔24 فروری چھٹی کا دن تھا۔ اس روز زیادہ بڑی تعداد میں لوگ ادب کے اس جشن میں شریک ہوئے۔لاہوریوں نے ثابت کیا کہ وہ صرف کھانے پینے اور موج مستی ہی کے شوقین نہیں،سنجیدہ مباحث کے بھی شائق ہیں۔اس روز بھی کوئی بارہ گھنٹوں پر محیط پروگرام ترتیب دئیے گئے تھے۔اس روز کے اکثر مقرر تو وہی تھے جو ایک روز پہلے خیالات ظاہر کرچکے تھے تاہم کچھ نئے لوگوں کو بھی موقع دیا گیا۔ ان میں اردو کے چند جانے پہچانے اور دو ایک نئے لکھنے والے بھی تھے۔ عطاءالحق قاسمی، اصغر ندیم سید، خالد طوراور علی اکبر ناطق شامل تھے جبکہ دیگر مقررین میں تہمینہ درانی، اطہر طاہر، محسن حامد شامل تھے۔ دن کا آغاز ”پنجاب میں اردو ادب کے مستقبل“ پر گفتگو سے ہوا۔ ہمارے لئے یہ ایک پریشان کن موضوع تھا۔ کیا پنجاب میں اردو ادب کا مستقبل خطرے میں ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اردو کا سارا جدید ادب پنجاب میں لکھا گیا اور یہ اب مابعد جدید ادب کی نئی روایت بنانے میں بھی اسی سرزمین کے ادیبوں کا نہایت اہم کردار ہے۔ پھر یہ موضوع ہی کیوں سوچا گیا۔ اس سوال کو مباحثے میں شریک حضرات نے زیادہ توجہ نہ دی اور وہ پنجاب میں اردو ادب کی روایت کا تاریخی ذکر کرتے رہے تاہم ایک ہلکا سا اطمینان یہ تھا کہ چلیں انگریزی کی چہل پہل میں کہیں اردو ادب کا ذکر تو آیا! اس روز ”دولت مشترکہ، قومیت اور عالمگیریت“ کے عنوان سے اچھی بحث ہوئی۔ پاکستان کے انگریزی ادب کا گہرارشتہ ان تینوں سے ہے۔ ایک حقیقت یہ سامنے آئی کہ مغرب میں پاکستانی اور ہندوستانی انگریزی ادب کو دولت ِ مشترکہ کی ادبی روایت کے تحت رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے انگریزی ادب کی مرکزی روایت سے نہیں جوڑا جاتا۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو نوآبادیاتی ماضی رکھنے والے ان دونوں ملکوں کے انگریزی لکھنے والوں کو درپیش ہے۔ اردو فکشن اور شاعری میں بیانیاتی ہیئتوں پر بھی مذاکرہ ہوا،جس میں افضال احمد سید اور دیگر نے حصہ لیا۔ یہ ایک حیرت کی بات تھی کہ اس مذاکرے میں اردو کا کوئی مستند نقاد موجود نہیں تھا،صرف وہ شعرا موجود تھے جن کی کچھ تحریروں کے انگریزی تراجم کئے جاچکے ہیں۔ گویا اس فیسٹول کے منتظمین نے یہ معیار مقرر کیا تھا کہ صرف انگریزی سے تعلق ہی اس میں شرکت کی شرطِ اول و آخر ہے۔ اس روزجس موضوع پر خاصی فکر انگیز گفتگو ہوئی، وہ ”نسائی آوازیں“ تھا۔ اس میں منیزہ شمسی اور فائزہ خان نے حصہ لیا۔ منیزہ شمسی کا کہنا تھا کہ پاکستانی ادب میں صنفی امتیاز اس بات سے بھی نمایاں ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر لکھنے والے مرد ہیں اور عورتوں کی تحریروں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں پڑھا جاتا۔ انہوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ اردو کی فکشن نگار کسی طرح مغربی فکشن نگار خواتین سے کم نہیں ہیں۔ پاکستانی عورتوں نے اپنے وجودی تجربات کو خود اپنے سٹائل میں لکھا ہے۔ منٹو پر عائشہ جلال کی گفتگو نے تو سماں باندھ دیا تھا۔ منٹو کی بھانجی عائشہ جلال کا کہنا تھا کہ منٹو ایک عظیم مصنف تھا جسے تقسیم کے تجربے نے تخلیقی سطح پر بہت کچھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ منٹو کو ابھی انگریزی میں ٹھیک طرح منتقل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے ایک بات یہ بھی کہی کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو منٹو کی عظمت کو زیادہ بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا۔ یہ بات انہیں شاید اسلئے کہنا پڑی کہ منٹو کو ہندوستانی ادیبوں نے ہندوستانی اور پاکستانی ادیبوں نے پاکستانی ادیب کہا۔ گویا تقسیمِ ہند کے ساتھ منٹو بھی تقسیم ہو گیا۔ ایک ادیب کے طور پر منٹو اسی طرح مشترک ہے جس طرح میر اور غالب۔دوسرے روز بچوں کے ادب، سیاسی سوانح عمری لکھنے کی روایت، بحوالہ دختر مشرق، پاکستانی انگریزی شاعری کی دریافت پر بھی مذاکرے ہوئے۔ بپسی سدھوا سے گفتگو کا الگ سیشن تھا۔ تہمینہ درانی کے نئے انگریزی ناول”وراے نقاب“ پر مصنفہ سے گفتگو بھی ہوئی۔ فن تعمیر اور جمالیات کے رشتوں پر نیئر علی دادا، ایبا کوش اور کامل کے ممتاز کی بہت اہم بات چیت سے حاظرین لطف اندوز ہوئے۔ ثقافتی تصادم پر ولیم ڈیلرمپل کی گفتگو نے معاصر عہد میں ثقافتوں کے تصادم کے نظریات کو ایک نیا تناظر دیا۔ اس طور یہ ایک حقیقی معنوں میں شانداز ثقافتی پروگرام ثابت ہوا، جس میں کئی سوالوں کے جواب ملے اور کئی نئے سوال سامنے آئے۔ نئے زاویوں سے سوچنے کی تحریک لوگوں کو ملی اور پاکستانی انگریزی ادب کے پاکستان کے نمائندہ ادب ہونے کا ایک ایسا ڈسکورس بھی سامنے آیا جس پر آگے چل کر مزید بحث ہوگی۔ خود اردو ادیبوں کیلئے ایک چیلنج بھی کہ وہ کس طور دولت مشترکہ کی روایت سے وابستہ اس ادب کے مقابلے میں اپنی مقامیت کو عالمی سطح پر تسلیم کراتے ہیں!