محمد فیاض انصاری
اللہ تعالیٰ نے یحیٰی بن زکریا علیہ السلام کو پانچ کلمات کا حکم دیا کہ وہ خود بھی اس پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں، ممکن ہے کہ وہ اس کام میں تاخیر کر دیتے کہ اتنے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ کلمات کا حکم دیا ہے کہ ان پر خود بھی عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو، یا تو یہ کلمات تم بنی اسرائیل کو پہنچا دو یا میں پہنچا دوں۔ یحیٰی ؑ بن زکریاؑ بولے میرے بھائی مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے تو ایسا نہ ہو کہ مجھے اللہ کی طرف سے عذاب دیا جائے یا زمین میں دھنسا دیا جائے۔ چنانچہ یحیٰی بن زکریا علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت اللہ میں جمع کیا حتیٰ کہ مسجد بھر گئی، انہوں نے ایک بلند مقام پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر قوم سے اس طرح خطاب فرمایا ”مجھے اللہ تعالیٰ نے پانچ کلمات کا حکم دیا ہے کہ خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل پیرا کرنے کا حکم دوں۔“
پہلا حکم یہ ہے : تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ بناﺅ۔ مشرک کی مثال اس غلام کی سی ہے جسے کوئی شخص اپنے خالص مال سے خرید کر اپنے کاروبار کا خود مختار بنا دے لیکن یہ غلام شام کے وقت فروخت شدہ مال کی رقم اپنے آقا کے بجائے دوسرے کسی شخص کے حوالے کرتا جائے، کیا غلام کی اس حرکت کو کوئی شخص برداشت کرے گا۔ ہرگز نہیں!
پس اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا فرمایا اور وہی رزق دیتا ہے لہٰذا اس کی خالص عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناﺅ۔
دوسرا حکم یہ ہے : میں تم کو نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہوں۔ جب تک انسان نماز کی حالت میں ہوتا ہے اور دوسری طرف التفات نہیں کرتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ پس جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاﺅ تو کسی دوسری طرف عنان توجہ مبذول نہ کرو۔
تیسرا حکم یہ ہے : میں تم کو روزے کا حکم دیتا ہوں۔ روزہ دار کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے پاس کستوری کی تھیلی ہو اور اس کے تمام ساتھی اس کی خوشبو محسوس کر رہے ہوں۔ روزے دار کے منہ کی بُو اللہ کریم کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔
چو تھا حکم یہ ہے : میں تم کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا ہوں۔ صدقہ و خیرات کرنے والے کی مثال اس قیدی کی سی ہے جس کے ہاتھ اس کے دشمن نے اس کی گردن سے باندھ دئیے ہوں اور اسے قتل کرنے کے لئے مقتل کی طرف لے جا رہے ہو وہ قیدی دشمن سے کہ چھوٹا موٹا مال دے کر اپنے آپ کو بچا لے۔
پانچواں حکم یہ ہے : میں تم کو اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اللہ کے ذکر میں مشعول رہنے والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کو پکڑنے کے لئے دشمن اس کا پیچھا کر رہا ہو اور یہ شخص ایک قلعہ میں پناہ گزین ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے وہ شیطان کی شرارتوں سے ایسا محفوظ رہتا ہے جیسے کسی محفوظ قلعہ میں محفوظ ہو گیا ہو۔
یہ پانچ امور ذکر کرنے کے بعد رسول اکرم نے ارشاد فرمایا : اے میرے صحابہؓ میں بھی تم کو پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ یہ کہ :
-1 مسلمانوں کی جماعت سے وابستہ رہنا -2 اپنے امیر کی باتوں کو سُننا اور پھر -3 اس کی اطاعت کرنا -4 اللہ کے لئے ہجرت کرنا -5 اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر بھی باہر رہا تو گویا اس نے اپنے گلے سے اسلام کی رسی کو اُتار پھینکا۔ جب تک وہ پھر جماعت میں نہ مل جائے اور جو شخص جہالت کی رسم و رواج کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص جہنم کا ایندھن بنے گا۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگرچہ وہ شخص نماز، روزہ کا پابند ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو جب بھی جہنم کا ایندھن بنے گا تو رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ نماز روزہ کا پابند ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ تم مسلمان کو اس نام سے پکارا کرو جس نام سے اللہ نے ان کو پکارا ہے یعنی مسلمان، مومن، اللہ کے بندے یہ حدیث حسن ہے اور آیت سے اس کی شہادت ملتی ہے کہ ”یقیناً اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور اسی نے تمہیں رزق عطا فرمایا پس تم اس کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو کیونکہ وہ یکتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔“