حضرت پیر سید محمود علی شاہ بخاریؒ

پروفیسر سید جواد رضا بخاری
زاہد روحانی‘ عابد سجانی‘ صاحب اسرار باطنی و علوم دینی اور صاحب کشف و کرامات حضرت پیر سید محمود علی شاہ بخاری قدس اللہ سرہ العزیز کی ولادت 1924ءمیں پاکپتن شریف کے معروف دینی‘ مذہبی اور روحانی سادات گھرانہ میں ہوئی۔
تصریف بدری میں ہے۔
 (آج کل مصیبتوں کے خوف اور جلانے والوں کے ڈر کی وجہ سے عقل مند لوگ کم یاب ہیں)
حضرت پیر سید محمود علی شاہ بخاری کا سلسلہ نسب 17 واسطوں سے حضرت مولانا سید بدرالدین اسحاق (داماد حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر) اور 33 واسطوں سے حضرت علیؓ داماد رسول سے جا ملتا ہے۔ حضرت پیر سید محمود علی شاہ بخاری کا شروع ہی سے طبعی رجحان مذہبی تھا اور دین کے ساتھ لگاﺅ دوسرے ہمعصر بچوں سے آپکو منفرد کر دینے والا تھا۔ ابتدائی دنیاوی و باطنی تعلیم اپنے والد گرامی حضرت پیر سید .... علی شاہ بخاری سے چک کالے شاہ (چک سیدانوالہ) میں آپ کے مدرسہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن شریف میں داخلہ لیا۔ شروع ہی سے تصوف اور روحانیت کی طرف لگاﺅ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ فن پہلوانی‘ گتکا اور فنون حرب کا بھی شوق تھا۔
عہد شہاب میں قدم رکھتے ہی یاد الٰہی تعالیٰ اور مرشد کامل کی تلاش میں اس قدر محو ہوگئے کہ تعلیم جاری ر کھنے کی بجائے پاکپتن شریف کے اردگرد کے غیر آباد علاقوں میں چلے‘ وظائف اور مجاہدوں میں مصروف رہنے لگے کثرت عبادت الٰہی اور گریہ زاری کی وجہ سے آپ اکثر دنیاوی امور سے بے پرواہ ہو جاتے۔ اس دوران ولی کامل اور صاحب کشف و کرامات اور روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز حضرت بابا سید لطیف شاہ صاحب (یو پی ہندوستان والے) سے درگاہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پر ملاقات ہوئی اور وہی حضرت سید محمود علی شاہ بخاری نے حضرت بابا سید لطیف شاہ سے شرف بیعت حاصل کیا۔
حضرت سید محمود علی شاہ بخاری نے جدوجہد آزادی میں مقامی سطح پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو پاکپتن میں 1945-46ءکے الیکشن میں کامیاب کروانے کی بھرپور کوشش کی اور آل انڈیا مسلم لیگ کا پیغام اور دو قومی نظریہ جگہ جگہ جا کر خود اجاگر کیا۔ پاکپتن میں حضرت چن پیر سرکار کے ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کے لئے ا نتھک کوشش کی۔ تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی پورے برصغیر میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے لیکن مقامی سطح پر مسلمانوں اور ہندوﺅں کو ان شعلوں کی آگ سے بچانے کے لئے آپ کی کوششوں سے پاکپتن شریف میں ایک امن و امان کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت سید محمود علی شاہ بخاری اور ہندوﺅں کی طرف سے لالہ بشش ناتھ کو کمیٹی کا ممبر چنا گیا جبکہ اس کمیٹی کا سربراہ SDM تھا۔ اس امن و امان کمیٹی کے فعال کردار کی وجہ سے پاکپتن شریف ہندو مسلم فسادات سے محفوظ رہا۔ اگر کہیں فسادات کا خدشہ ہوتا تو آپ جناب اس موقعہ پر پہنچ جاتے اور فسادات کو برپا ہونے سے ہر ممکن حد تک روکتے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی حضرت سید محمود علی شاہ بخاری اور آپ کے بھائی پیر سید منظور علی شاہ بخاری نے مہاجرین کی آباد کاری‘ خوراک اور دوسری ضروریات زندگی فراہم کروانے میں اہم کردار سرانجام دیا۔
حضرت سید محمود علی شاہ بخاری بلند پایہ اوصاف اور دلکش نین نقش کے مالک تھے۔ آپ کی طبعیت میں غریب پروری اور مظلوموں کی حمایت کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی جابر شخص کی زیادتی یا شکایت پر فوراً اس کے خلاف اور کمزور شخص کے حق میں صف آراءہو جاتے۔ ظالم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا آپ کی ذات کا اہم وصف تھا۔ ساری عمر ٹیپو سلطان شہید کے اس مقولے کے مطابق بسر کی کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“ آپ کی ذات مبارک سخاوت شجاعت اور سپہ گری سے مزین تھی۔ گھوڑا سواری کے بہت شائق تھے اور ہمیشہ اعلیٰ نسل کے گھوڑے آپ کے زیر سواری رہے۔ حضرت سید محمود علی شاہ بخاری دربار عالیہ حضرت مولانا سید بدرالدین اسحاق کی انتظامیہ کمیٹی کے خزانچی اور بعد میں صدر بھی چُنے گئے۔ اس کمیٹی کے ذمے درگاہ حضرت مولانا سید بدرالدین اسحاق کی نگہداشت اور عرس کی تقریبات کا انعقاد کرنا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جلد ہی آپ نے چک کالے شاہ 11 ایس پی (چک سیدانوالہ) کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ وہیں اپنے وظائف‘ چلے اور عبادت کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کی دعا‘ تعویزات اور دم لوگوں کی مشکلات کے حل میں اثر روحانی رکھتے تھے۔ آپ کا اٹھرا کیلئے تعویز عورتوں کیلئے اکسیر اعظم تھا۔ اس تعویز کی بدولت کئی دائمی مریض خواتین کو حکم الٰہی تعالیٰ سے شفایاب ہوتے دیکھا۔ سایہ اور جنات کے اثر والے کئی مریض آپ کی دعا اور تعویزات سے صحت یاب ہوئے۔ حضرت سید محمود علی شاہ بخاری نے سلسلہ چشتیہ کو خوب فروغ دیا۔ آپ کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ آپ صاحب کشف و کرامات اور ولی کامل بزرگ تھے۔ آپ کی کرامات کے کئی واقعات ہیں جن میں ایک یہ کہ آپ نے اپنی جائے قبر مبارک اپنی وفات سے کئی سال پہلے کئی دوست احباب کو بتا دی تھی۔ سب حیران تھے کہ اس جگہ نہ کوئی قبرستان ہے اور نہ کوئی مزار اور پھر چند سالوں میں ہی اس جگہ کو محکمہ مال نے پورے علاقے کیلئے قبرستان کی منظوری دے دی۔ جہاں آپ نے اپنی قبر مبارک اور قبرستان کی پیش گوئی کی تھی۔ دوسرا واقعہ ہے کہ آپ کا ایک مرید آپ کے پاس ملاقات کی غرض سے حاضر ہونا چاہتا تھا۔ اس کا سفر طویل اور ٹرین پر تھا۔ یہ مرید ہر سٹیشن پر آپ جنا ب کو غائبانہ سلام پیش کرتا رہا تاکہ پیر صاحب کی روحانی طاقت معلوم کی جا سکے۔ جب یہ مرید آپ کے پاس آیا تو آپ نے آتے ہی فرمایا کہ آج تم نے پیر کو سلاموں کی بھرمار کر دی۔ وہ مرید بہت متاثر ہوا اور آئندہ ایسی غلطی کرنے سے توبہ کرلی۔ حضرت پیرسید محمود علی شاہ بخاری بزرگان دین اور اولیائے اکرام سے انتہائی عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور ہر سال صفرالمظفر کی 10 تاریخ کو ان کا ختم پاک وسیع پیمانے پر دلاتے تھے اور یہ سلسلہ اب تک سجادہ نشین دربار عالیہ سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ 5 مارچ 1983ءکو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی ایک نماز جنازہ چک کالے شاہ (سیدانوالہ) جبکہ دوسری دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر میں پڑھائی گئی ۔ آپ کو کی وصیت کے مطابق چک کالے شاہ میں دفن کیا گیا۔ جہاں آپ کا مزار مبارک مرجع خاص و عام ہے اور لوگ آپ کے مزار سے روحانی فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 5 مارچ کو سجادہ نشین صاحبزادہ پیر سید حماد رضا بخاری کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے،جبکہ اس مرتبہ حضرت سید مسعود علی شاہ بخاری کا پہلا سالانہ ختم پاک بھی اسی روز منایا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...