ابو سعدیہ سید جاوید علی شاہ
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلہ میں اولیائے کرام اور بزرگان دین کی خدمات ناقابل فراموش اور بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ انہی مشاہیر اسلام نے جہاد باسیف اور اپنی سیرت و کردار کے ذریعے کفرستان میں شمع اسلام فروزاں کی جس کے نتیجے میں لاتعداد غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان برگزیدہ ہستیوں اور مجاہدین اسلام میں ایک اہم نام حضرت امام سرخ رو شہید کا بھی ہے جو کہ برصغیر کی عظیم روحانی ہستی حضرت سید امام علی الحق شہید کے بھانجے ہیں۔ آپ کا مزارِ اقدس قلعہ سیالکوٹ کے جنوبی جانب مرجع خلائق ہے۔ جہاں مخلوق خداوندی حاضری دیکر اللہ کے فضل و کرم سے ذہنی و قلبی سکون جیسی عظیم نعمتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ دل کی مرادیں پاتی ہے۔ 757ھ میں جب مراد علی المعروف پیر مرادیہ نامی مسلمان کے قتل ناحق کا بدلہ لینے کے لئے حضرت سید امام علی الحق شہید نے سیالکوٹ (جس کا پرانا نام سل کوٹ تھا) کے راجہ سل کے خلاف باقاعدہ لشکر کشی کی تو راجہ کی فوج نے اپنی پسپائی کے بعد قلعہ سیالکوٹ کے اندر خود کو محصور کر لیا۔ اس پر اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت سید امام علی الحق شہید المعروف امام صاحب نے لشکر میں شامل اپنے بھانجے سید سرخ رو کو حکم فرمایا کہ آج ہر حال میں قلعہ فتح کر کے اس کے اندر نماز ادا کرنی ہے۔ چنانچہ حضرت سید سرخ رو نے اپنی خداداد قوت کے ذریعے سیالکوٹ قلعہ کے دیو ہیکل دروازے کو ٹکر مار کر توڑ دیا۔ لشکر اسلام نعرہ ہائے تکبیر و رسالت بلند کرتے ہوئے فاتحانہ انداز میں قلعہ سیالکوٹ میں داخل ہو گیا۔ راجہ سل کے لشکریوں نے ہتھیار ڈال دیئے، فتح و نصرت نے اسلامی لشکر کے قدم چوم لیے۔ ہر طرف سے نعرہ ہائے تکبیر و رسالت کی فلک شگاف صدا¶ں سے فضا گونج اٹھی اور کلمہ¿ طیبہ کے ترانے گائے جانے لگے۔ کفر کی کمر ٹوٹ گئی اور دور دور تک اسلام کا بول بالا ہو گیا۔ کفر و شرک اور جبر و استبداد کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور شمع اسلام فروزاں ہونے سے یہ کفرستان بقعہ¿ نور بن گیا۔ دربار حضرت سرخ رو شہید فن تعمیر اور نقش و نگاری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے جہاں شیشے کا کام انتہائی خوبصورت اور جدید ترین فن تعمیر کی بلندیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ دربار شریف کا انتظام و انصرام ایک طویل عرصہ تک درگاہ حضرت سید امام علی الحق شہید کے سجادگان پیر سید محمد علی شاہ صاحب و برادران کی اولاد سید ذاکر علی شاہ، سید اللہ دتہ شاہ، سید محمد بخش شاہ، سید محمد حسین شاہ، سید شوکت علی شاہ، سید ریاض علی شاہ، پیر سید مبارک علی شاہ، سید رفاقت علی شاہ، سید ریاض علی شاہ، سید جاوید علی شاہ، سید تبارک علی شاہ، سید خادم حسین شاہ اور اولاد سید برکت علی شاہ کی تحویل میں رہا۔ آجکل اس دربار شریف کا نظم و نسق ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے جس میں نسیم رانا، افتخار حسین بھٹی اور الطاف حسین بھٹی سرفہرست ہیں۔ امسال حضرت پیر سرخ رو شہید کا سالانہ عرس مبارک 14، 15 اور 16 فروری کو آپ کے مزار پُر انوار پر انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔
”مجاہدِ اسلام حضرت پیر سُرخ رُو شہیدؒ“
Mar 01, 2013