چودھری نور احمد نور
محسن اعظم نے ہجرت کے موقع پر مدینة النبی میں اخوت و بھائی چارے کا بے مثل رشتہ قائم فرمایا۔ 45 مہاجرین کے 45 انصاری بھائیوں نے اپنی آدھی آدھی جائیداد و پونجی اپنے مہاجر بھائیوں کو پیش کر دی۔ حضرت سعد بن ربیعؓ نے تو اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنی دو بیویوں میں سے ایک بیوی کو طلاق دینے کے بعد اپنے مہاجر بھائی کو نکاح کر لینے کی مخلصانہ پیشکش بھی کی مگر مہاجر بھائی نے شکریہ کے ساتھ معذرت فرمائی۔ حضرت خالد بن زیدؓ المعروف حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی خوش بختی کہ انہیں محسن اعظم کے بھائی بننے کا شرف ملا۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ رحمت عالم نے نچلی منزل میں قیام کو پسند فرمایا۔ مگر انصاری بھائی حضرت ابو ایوبؓ نے بالائی منزل کو پیش فرمایا تھا۔ محمد کا فرمان تسلیم تو کر لیا مگر بالائی منزل میں بچوں سمیت دیواروں کے ساتھ چپکے رہتے کہ چھت پر چلنے پھرنے سے بے ادب و گستاخ کے زمرے نہ آجائیں کیونکہ نچلی منزل میں سرکار دو عالم، فخر بنی آدم حضرت محمد کی رہائش تھی۔ جب حضور کو اپنے انصاری بھائی کی دقت کا علم ہوا تو آپ نے بالائی منزل میں رہائش فرما لی۔ یہ سلسلہ چھ سے سات ماہ جاری رہا بعد میں آقائے نامدار اُم المومنینؓ اپنی ازواج مطہرات کے حجرات میں قیام پذیر ہو گئے۔
یمن کے بادشاہ نے پیغمبرِ آخرالزمان کے لئے مکان تعمیر کروایا۔
حضور کے ظہور مبارک سے کئی سال پیشتر یمن کے بادشاہ تبع اوّل حمیری نے یثرب (مدینة النبی) پر چڑھائی کی تھی۔ اہل یثرب نے اپنی جوانمردی و دلیری سے اس کی فوج کا مقابلہ کیا۔ دن بھر لڑائی ہوتی رہتی مگر رات کو جب جنگ بند ہوتی تو اہل یثرب مخالف فوج کو کھانا پہنچا دیتے۔ اُن کے حسن اخلاق کے پیش نظر یمن کے بادشاہ تبع اوّل نے جنگ نبوی کا عندیہ دے دیا۔ بادشاہ خود بھی نیک آدمی تھا۔ جنگ بندی کے معاہدہ کے حوالے سے اہل یثرب کی طرف سے دو آدمی آئے ان میں سے ایک توریت و انجیل کا عالم تھا دوران گفتگو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اس خطہ¿ زمین پر آپ کی حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس عالم نے بتایا کہ قدیم صحیفوں میں یہ درج ہے کہ اس علاقہ میں صرف آخر الزمان پیغمبر کی حکومت قائم ہو سکے گی۔
تبع اوّل بذاتِ خود نیک خو انسان تھا۔ اُس نے ساری گفتگو کا خلاصہ اپنی فوج میں موجود علماءکو سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کی فوج کے ساتھ اس لئے جگہ جگہ پھر رہے ہیں کہ ہمیں پیغمبر آخر الزماں کے بارے کچھ خبر ہو سکے۔ سابقہ سماوی کتب میں ان کی آمد کے بارے ہم جان چکے اگر انہوں نے اسی سرزمین میں ظہور پذیر ہونا ہے تو ہم یہیں رہیں گے۔ تبع نے نہ صرف اجازت دے دی بلکہ شاہی اخراجات سے ان علماءکے لئے رہائش گاہیں بھی تعمیر کروا دیں۔
ایک مکان پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد کے لئے بھی تعمیر کروا دیا۔ ایک بڑے عالم کو اس میں ٹھہرایا اور اسے خط بھی دیا۔ تلقین کی کہ یہ خط حضور خاتم المرسلین تک پہنچا دیا جائے اگر تمہاری زندگی میں ممکن نہ ہو سکا تو اپنی اولاد کو دیکر یہی وصیت کرنا۔
خط کا مضمون:
”اے اللہ تعالیٰ کے رسول آپ قیامت کے روز مجھے بھول نہ جانا، میں آپ کا پہلا اُمتی ہوں۔“
چنانچہ جب حضور نے اعلان نبوت فرمایا اور بعد میں اہل یثرب کی درخواست پر حضرت مصعب بن عمیرؓ کو تبلیغ دین کے لئے یثرب بھیجا تو اُس بڑے عالم دین کی اولاد میں سے حضرت خالد بن زیدؓ تھے جو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے نام سے معروف تھے اور وہ صحابی¿ رسول کی تبلیغ سے دولت ایمان سے سرفراز ہو گئے۔ انہوں نے ابو یعلیٰ کو مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ تبع مرحوم کا خط حضور تک پہنچائیں۔ وہ خدمتِ رسالت میں خط لے کر حاضر ہوئے تو حضور نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا ”ابویعلیٰ خط لے آئے ہو۔“ ابویعلیٰ نے کہا ”میرا تو آپ سے تعارف نہیں ہے۔ آپ کو خط کا کیسے پتہ چلا؟ تو محسن اعظم نے فرمایا:
”میں اللہ کا رسول ہوں“ خط پڑھ کر حضور اکرم نے فرمایا ”مرحبا بالتبع مرحبا، بالاخی الصالح “ یعنی تبع کو ”مرحبا“ فرمایا اور اُسے اپنا پاکیزہ بھائی فرمایا۔“ ہجرت مدینہ طیبہ کے وقت قبا کی بستی میں قیام پذیر ہونے کے بعد محلہ بنی سالم میں نماز جمعہ پڑھائی اور پھر یثرب کی بستی میں تشریف آوری ہوئی۔ ہر مومن کی یہ تمنا تھی کہ آپ اسے میزبانی کا اعزاز دیں۔ مگر آپ نے فرمایا ”میری اونٹنی کو پتہ ہے کہ اسے کہاں ٹھہرنا ہے۔ چنانچہ اونٹنی اس گھر کے سامنے رک گئی جسے ایک عرصہ پہلے یمن کے بادشاہ تبع اوّل نے حضور پاک کے لئے تعمیر کرایا تھا اور وہاں بڑے عالم کی اولاد کی صورت میں حضرت خالد بن زیدؓ المعروف حضرت ابو ایوب انصاریؓ رہائش پذیر تھے۔ م¶اخات کے حوالے سے آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد الرسول کے مدینہ کی بستی میں بے مثل میزبان ثابت ہوئے۔