'' یہ انداز گفتگو کیا ہے''

Mar 01, 2014

رفیق غوری

 بہت دن ہوئے اسی ادھیڑ بن میں رہا کہ تقریبا تیرہ برسوں سے بد امنی اور دہشتگردی کی آگ میں جلنے والے وطن عزیز اور عزیزان وطن کی اس خوشی میں شریک ہوں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے تدبر سے کام لیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کیساتھ مذاکرات کرنے کیلئے کمیٹی بنا کر ایک احسن قدم اٹھایا ہے لیکن سچی بات ہے کہ ادھ کچے اور ادھ پکے دانشوروں،خصوصاً ٹی وی اینکرز کی پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہونے والی یاجوج ماجوج صفت نئی پنیری سے تعارض سے بچنے کی سوچ کے باعث عوام کی اس خوشی میں شریک نہ ہو سکا۔ ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک جلد بازاور عجلت نوازطرز کے کبھی ہتھیلی پر سرسوں جمانے والے اور کبھی چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والے ان دانشوروں کی فوج جس تواتر کے ساتھ وزیر اعظم کی اس کوشش میں رخنہ اندازی کرتی رہی میرے لئے مشکل ہوتا گیا کہ پنبہ کجا بہم؟کس کس افلاطونی اعتراض اور چانکیائی ریشہ دوانی کاتدارک کر کے قوم کے یکسو ہونے کیخلاف ادھار کھائے بیٹھے لوگوں سے یا انکے بارے میں قارئین سے عرض کروں۔ بقول منیر نیازی مرحوم'' ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں کہ مصداق'' تین ہفتے ضائع کر کے حاضر ہوں بلکہ کہوں گا مجبور ہو کر حاضر ہوں کہ دن دیہاڑے قوم کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی, بدامنی اور تقسیم کی آگ کے حوالے کرنیوالوں کے سامنے رحم خدارا رحم کی اپیل اور رحم بار الہ رحم کی دعا کروں۔ لہٰذا اس دیری کی معذرت قبول کریں اور سب سے پہلے یہ خوشخبری سنیں کہ حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرت کامیاب ہونے اور ملک میں امن کے قیام کا امکان موجود ہے لیکن کچھ بنیادی نوعیت کی باتوں کو سمجھنا اور ذہنی انتشارعام کرنے والوں کی ان کوششوں سے ہٹ کر سوچنا لازم ہے۔پہلی بات یہ کہ جن لوگوں کو طالبان نے اپنے کمیٹی کے ارکان کے طور پر نامزد کیا ہے وہ اور انکی جماعتیں کسی بھی صورت قابل گردن زنی یا لائق طعنہ زنی نہیں ہیں۔ یہ شخصیات اور انکی جماعتیں قابل احترام ہیں کہ وہ ایک پل کا کردار ادا کر رہیں تاکہ بدامنی کے برسوں سے بکھرے سونامی اور جلتی آگ کے باوجود مشترکات پر پوری قوم کو اکٹھا کر سکیں اسلئے ایسے لوگوں کا مضحکہ اڑانے والے انکی ''انٹیگریٹی'' پر حرف گیری کرنیوالے درحقیقت اس دیوار کو ڈھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو بد امنی کے راستے میں کھڑی کرنا ہر پاکستانی کی آرزو ہے۔کیا کبھی آگ بجھانے کا ذریعہ بننے والا پانی آگ کا ساتھی سمجھا جا سکتا ہے حالانکہ آگ بجھانے کے عمل میں پانی بالکل آگ کے ساتھ جڑا ہوا اور معانقہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری بات جسے سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بد امنی کی آگ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد شروع ہوئی۔ اسے تقریباً تیرہ سال ہو رہے ہیں۔ اس آگ کو بجھانے، نفرتوں کو مٹانے اور بگاڑ کو روکنے کیلئے تین ہفتوں میں دسیوں بار بےتاب، بے قابو اور بے صبرا ہونا کسی ٹین ایج سیاستدان اورانڈر نائیٹین اینکرز کے شایان شان تو ہوسکتا ہے کسی جہاندیدہ دانشمند'' دانشور'' کے ہر گز نہیں. لیکن بد قسمتی سے ایسی بھیڑ چال کا عالم ہے کہ ہر کوئی ہوا کے دوش سوار ہے۔ دن میں ایک یا دوبار نییں بار بار مذاکرات ختم کرکے آپریشن کی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سچ نہیں کی حکومتی کمیٹی اور طالبان کیطرف سے نامزد کردہ کمیٹی کے درمیان مذاکرات غیر مشروط طور پر شروع ہوئے تھے اور کسی فریق نے رضا کارانہ یا یکطرفہ طور پر جنگ بندی قبول نہیں کی تھی.کیا یہ بھی سچ نہیں کہ مذاکرات حکومتی خواہش پر شروع ہوئے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ وزیر اعظم نے حکومتی کمیٹی کو خود مختار قرار دیا تھا کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہ کام حکومتی وزراءکے بس میں نہ دیکھ کر ہی چار رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی اور کیا یہ سچ نہیں کہ حکومتی کمیٹی کا مطلب حکومت نہیں بلکہ حکومت کی نامزد کردہ آزاد خودمختار کمیٹی ہے۔ اگر یہ سارے سچ ہیں تو پھر سوچنا ہوگا کہ مذاکرات مکمل ہونے یا کامیاب ہونے سے پہلے نتائج کا حصول کیونکر ممکن ہوگا، یکا یک شرائط کیسے لگائی جا سکتی ہیں نیز جو کام حکومت خود کرنے کو تیار نہیں رضاکارانہ طور پر اسکی توقع طالبان سے کیسے کی جاسکتی ہے، اگر یہ کمیٹی خود مختار ہے تو ہر حکومتی وزیر اس معاملے میں کیوں بولنا لازمی سمجھ رہا ہے، کیا سنجیدگی کا تقاضا نہیں کہ صرف کمیٹی میں سے اسکے سربراہ عرفان صدیقی بات کریں اور وہ بھی پورے عرفان اور صدق کی بنیاد پر نہ کہ کالمانہ یا مشیرانہ ضرورتوں کے پیش نظر بولیں, پوری طرح ناپ تول کر۔ لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عابد شیرعلی تک اس معاملے میں اپنی ماہرانہ رائے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے میں کونسے مذاکرات کیا نتائج دے سکیں گے؟ ایک سنجیدہ کوشش گیلانی دور میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے پہلے پارلیمنٹ کے نامزد ارکان کی طرف سے سامنے آئی تھی کہ جب تک کمیٹی اتفاق نہیں کر پائی کوئی ترمیمی شق سامنے نہیں لائی گئی تھی۔ کیا ملکی سلامتی، استحکام ترقی اور خوشحالی کیلئے اس احتیاط کو لازم نہیں کیا جاسکتا کہ بولنے سے پہلے معاملے کی سنگینی کا ادراک اور احساس ضروری ہے۔ کیا یہ ایسے دلائل پرویز رشید ایسے منجھے ہوئے سیاستدان کے شایان شان ہیں کہ وہ طالبان کی تنقیص کرتے ہوئے بھارت کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ جس بھارت کو گلے نہ کاٹنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے پاک وطن کو کاٹ پھینکنے والے اس بھارت کی تعریف کا یہ محل نہیں ہے۔ امن کے قیام سے ہی جمہوریت پھلے پھولے گی، ملکی معیشت ترقی کرے گی، ملک میں سرمایہ کاری آ ئے گی اور ایک نئی تاریخ بنے گی. لیکن اس کیلیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ تھڑ دلے لیڈر صرف لٹیا ڈبونے کیلئے ہوتے ہیں۔ یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو مظلوم بنا کر پیش کرنیوالے طالبان کے شریعت نافذ کرنے کے مطالبے سے کیوں بدک بدک جاتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل تو بنائی ہی اسی کام کیلئے گئی تھی تو پھر خوف کاہے کا؟طعنہ زنی کیوں, اخباری بیانات کا زنانہ ایڈیشن کیوں؟ اس سے تو بنی ہوئی بات بگڑ سکتی ہے اور کوئی بھی متین شخص کہہ سکتا ہے'' کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے !

مزیدخبریں