پاکستان کسی نہ کسی بہانے خبروں میں رہتا ہے، کبھی بجلی کے خلاف شدید ہنگامے، زلزلہ، طاہر القادری کا دھرنا، عمران خان کا دھرنا، حکومت کا اہم مقدمات کے سلسلے میں عدالتوں سے برسر پیکار ہونا، دھماکے، دہشت گردی، الطاف حسین کے خطاب وغیرہ وغیرہ، اب جن معاملات کی طرف پاکستان کے حوالے سے میڈیا کا رُخ ہے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہیں، پوری قوم کو آنے والے بجلی کے بحران کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومتی اور طالبان کی ٹیم کو مذاکرات کی شب و روز پر لگا دیا گیا ہے۔ نئے سوالات اُٹھ رہے ہیں طالبان کی مقرر کردہ ٹیم وہ مطالبے کر رہی ہے وہ جو طالبان خود بھی نہیں کر رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپریشن کی بازگشت آتے آتے اچانک مذاکرات کی طرف چل پڑے، یہ کھیل سمجھ سے بالاتر ہے وہ حکومتیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں جو اپنی ہی رعایا کے کسی ناجائز دباﺅ پر آ کر ان سے مذکرات کرنے لگیں اور پھر ایسے لوگوں سے جن کے خوف سے ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، سیاح پاکستان کا راستہ بھول گئے ہیں، قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ ”جو شخص جان بوجھ کر کسی انسان کا قتل کرے وہ جہنم میں جائے گا“ طالبان کی جانب سے کئے گئے حملوں میں کتنے معصوم قتل ہوئے، لال مسجد میں فوجی آپریشن میں مارے جانے والے لوگ جنہیں مولانا عبدالعزیز ”شہید“ کہتے ہیں مگر وہ خود شہید کا رُتبہ جسے اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم بتایا ہے اس رُتبہ کو حاصل کرنے کے بجائے برقعہ پہن کر موقع سے فرار ہو گئے ان کا ایک خطرناک بیان ہے کہ ”اگر طالبان کے مطالبے نہ مانے گئے تو تین سو خودکش خواتین حملوںکے تیار ہیں۔“ اس طر ح کی دھمکی تو کبھی بھارت نے بھی پاکستان کو نہیں دی، ساتھ ہی مولانا صاحب صحیح شریعت نافذکرنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ کوئی مولانا سے پوچھے کہ یہ جو ”خودکش خواتین“ تیار ہوئی ہیں کیا یہ کسی غیر مسلم کو ماریں گی؟ سعودی عرب جہاں شریعت نافذ ہے وہاں کسی کی یہ مجال نہیں کہ وہ حکومت کو یا عوام کو دھمکی دے سکے چونکہ وہاں قانون نافذ کرنے ادارے مضبوط ہیں، پاکستان کے ساتھ یہ مسئلہ ہے اور آجکل ہونے والے واقعات سے اس کا ثبوت ہیں کہ ہم اور ہمارے ادارے جو بھارت سے لڑنے، کشمیر فتح کرنے کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنے ہی ملک کے چند لوگوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں، ہمارے اندر بے ایمانی چھپی ہے قانون سب کیلئے برابر نہیںہے ورنہ کدھر کے طالبان، کدھر کا لیاری گینگ، یا کدھر کا کوئی ایک دہشت گرد جو عوام کا سکون خراب کرے، ملک کی معیشت تباہ کرے؟ وغیرہ وغیرہ۔ نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والے ایک اور جید مولوی جناب سمیع الحق بھی طالبان ٹیم میں ہیں ان کا ”کیسٹ“ معاملہ ابھی عوام کے ذہنوں میں شاید محفوظ ہوگا۔ پاکستان کے آئین سے نابلد مولوی حضرات یہ کہنے کے بجائے کہ آئین کی شقوں پر عملدرآمد نہیںہو رہا یہ کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کا آئین اسلامی نہیں، لگتا ہے کہ انہوںنے آئین پڑھا ہی نہیں ورنہ یہ آئین تو تمام مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر بنایا گیا ہے، اس پر عملدرآمد نہ ہونا یہ اس پر عملدرآمد کرانے والوں کی ذمہ داری ہے۔ اب تو ہمارے فوجی حکام کا واضح بیان بھی ہے کہ ہم بلاتاخیر کشیدہ علاقوں میں حکومتی ”رٹ“ قائم کر سکتے ہیں، اس لئے یہ حکومت کا کام ہے کہ تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اپنی بہادر افواج کو یہ کام سونپ دیں، تاکہ ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے جو فوج جیسا معزز پیشہ اختیار کرنے والے جوانمرد کی گردن سر سے علیحدہ کر کے انکی محب وطنی کی سزا دیتے ہیں، مساجد میں نمازیوں کو بم سے اُڑا کر انہیں نماز پڑھنے کی سزا دیتے ہیں، مارکیٹوں میں ننھے بچوں، معصوم خواتین کو بم سے اُڑا دیتے ہیں، کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر اسکی معیشت کو تباہ کرتے ہیں کہ وہاں کوئی سیاح نہ آسکے ، وہ ملک جو ایٹمی طاقت ہے اسے غیر محفوظ ملک قرار دیا جائے صرف انکی غیر قانونی حرکات کی بنا وغیرہ وغیرہ، ان کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے، ان سے مذاکرات؟ یہ بات درست ہے کہ ان سے مقابلہ کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے، ہماری افواج کی ہے کسی دوسرے ملک کو یہ ذمہ داری لینے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ ہم ایک آزاد قوم و ملک ہیں اس کو بہانہ بنا کر باہر کے ”گھس بیٹھئے“ ہمارے اپنے بہادر معصوم لوگوں کو غیر ملکیوں سے ”جہاد“ کی ترغیب دیتے ہیں۔ میاں صاحب کل لوگوں نے کہا تھا کہ ”قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“ آ ج قوم یہ کہتی ہے کہ ”دہشت گردوں سے نجات دلاﺅ میاں صاحب قوم تمہارے ساتھ ہے۔“