اسلام آباد (نامہ نگار) ایوان بالا(سینٹ) میں سینیٹر میاں رضا ربانی نے شام کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں مبینہ تبدیلی پر دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے پارلیمنیٹرین کے بارے میں ریمارکس پر سخت تنقید کرتے ہوئے ان کے خلاف 31 سینیٹروں کے دستخطوں سے تحریک استحقاق پیش کی، چیئرمین سینٹ نے ان کی تحریک متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دی۔ رضا ربانی نے ایک موقر قومی جریدے میں چھپی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے ریمارکس سے ایوان کے ارکان کا استحقاق مجروح ہوا ہے، ترجمان نے شام سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے اس کے ناقدین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا پارلیمنٹ کو پالیسی بنانے کا اختیار نہیں اور جن لوگوں نے اس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں ان کا اپنا مفاد ہے اور انہیں صورتحال کا ادراک ہی نہیں، رضا ربانی نے مطالبہ کیا یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جائے، قائدایوان سنیٹر راجہ ظفرالحق نے کہا شام سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کی وزیراعظم کے مشیر خارجہ نے تردید کی ہے اس وضاحت کے بعد اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں اور کالم لکھے گئے، ترجمان کا اشارہ پارلیمنٹ کی طرف نہیں، ان ناقدین کی طرف ہے جنہوں نے اس حوالے سے لکھا ہے، مشیر خارجہ اس معاملے کی وضاحت کریں گے، سنیٹر مشاہد حسین نے کہا ترجمان نے جو زبان استعمال کی وہ درست نہیں۔ چیئرمین سینٹ نے دستی کے معاملے پر اراکان کو بات کرنے سے روک دیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا جو سوال پوچھا جاتا ہے اس کا جواب ایوان کو دے دیا جاتا ہے، غیر متعلقہ ضمنی سوالات کے لئے وقت مانگا جاتا ہے تو اپوزیشن کی جانب سے کہا جاتا ہے وزراء تیاری کر کے نہیں آتے، انہوں نے کہا اعتزاز احسن لائق آدمی ہیں ہم ان کی لیاقت کے قائل ہیں مگر وہ ہماری بات بھی سن لیا کریں، اعتزاز احسن نے کہا میں نے لیاقت کی بات ہی نہیں کی، بعض وزیر بہت لائق ہیں، بات فرض شناسی کی ہے، وزراء نالائق نہیں ان میں فرض شناسی کی کمی ہے، سنیٹر کلثوم پروین کے اس سوال کہ’’ گریڈ 20 اور21 کے افسران کے نام اورڈومیسائل کے نام بتائے جائیں جو فی الحال جاری یا اضافی چارج کی بنا پر بطور وفاقی سیکرٹری کام کر رہے ہیں ، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے بتایا اس وقت پانچ افسر ہیں جو ایڈیشنل چارج،کرنٹ چارج کے طور پر سیکرٹری کے فرایض انجام دے رہے ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے، سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا یہ اقربا پروری ہے، تین صوبوں کے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے اور پنجاب بلکہ لاہور سے لوگوں کو لا کر تعینات کیا جا رہا ہے، کیا کسی دوسرے صوبے میں کوئی لائق آدمی نہیں، یہاں تک کہ اب دوسرے صوبوں میں بھی پنجاب سے لوگوں کو بھیجا جا رہا ہے اور گریڈ 20 کے لوگوں کو بھی اہم ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں، شیخ آفتاب نے کہا خیبر پی کے کی حکومت نے نام لیکر ایک پولیس افسر مانگا تھا ،ان کی درخواست پر مطلوبہ پولیس افسر کے پی کے کو دیا گیا ہے، اس میں ہمارا کیا قصور ہے، جہاں تک سرمایہ کاری بورڈ کے قائم مقام سیکرٹری عمران افضل چیمہ کا تعلق ہے، وہ پہلے ہی گریڈ 21 میں ترقی پاچکے تھے، سپریم کورٹ کے حکم پر ان کی تنزلی کرتے ہوئے انہیں گریڈ21سے گریڈ 20 میں کر دیا گیا ہے، اب وزیراعظم نے صوابدیدی اختیار کے تحت انہیں قائم مقام سیکرٹری تعینات کیا ہے جیسے ہی پروموشن بورڈ کا اجلاس ہو گا انہیں گریڈ 21 میں ترقی دے دی جائے گی، سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا یہ ناانصافی ہے میں ایوان سے جا رہا ہوں، اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم وزرا کی ناقص کار کردگی کے خلاف واک آئوٹ کرتے ہیں ،سینیٹر نجمہ حمید اپنے ساتھی سینیٹرز کے ساتھ گئیں اور اپوزیشن کو واپس ایوان میں لے آئیں۔ اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن نے نکتہ اعتراض پر کہا جمشید دستی نے پارلیمنٹرین پر بہتان لگایا ہے اس طرح کے الزامات عائد کرنا زیادتی ہے، وہاں خواتین ارکان رہتی ہیں، علماء بھی رہتے ہیں، چیئرمین سینٹ نے کہا یہ معاملہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس زیر التواء ہے لہذا اس پر بات نہ کی جائے۔ نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اپوزیشن نے وزراء کی ناقص کارکردگی پر بحث کی اجازت نہ ملنے پر واک آئوٹ کر دیا۔ رضا ربانی نے نکتہ اعتراض پر کہا وقفہ سوالات کے دوران اپنی وزارت سے متعلق سوالات ختم ہونے تک متعلقہ وزیر کو ایوان اور افسر کو گیلریوں میں موجود ہونا چاہئے۔ اس وقت کسی وزارت کا ایک بھی افسر موجود نہیں۔ ایوان بالا کو اہمیت نہیں دی جا رہی، سوالوں کے جوابات تفصیل سے نہیں دئیے جا رہے، یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر چیئرمین سینٹ نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ایوان سے واک آئوٹ کا اعلان کیا جس کے بعد ارکان ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خاں نے کہا حکومت ایوان بالا سے کوئی چیز نہیں چھپائے گی۔ اپوزیشن کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے ۔رضا ربانی کے نکتہ اعتراض کے جواب میں راجہ ظفر الحق نے کہا متعلقہ افسروں کی حاضری یقینی بنائی جائے گی۔ اپوزیشن شور شرابے سے گریز کرے اور ایوان کا تقدس ملحوظ خاطر رکھے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزارت کے افسران کو نوٹس لینے کے لئے ایوان میں موجود ہونا چاہئے۔ سینیٹر صغریٰ امام کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خاں نے بتایا کابینہ نے اگست 2009ء میں پہلی ٹیکسٹائل پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت اگلے پانچ سال کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات کا 25 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ طلحہ محمود، محسن لغاری اور کلثوم پروین کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے بتایا پچھلے پانچ سال کے دوران پی ٹی اے نے موبائل آپریٹرز سے 50 ارب 3 کروڑ 74 لاکھ روپے سے زائد اور دیگر کمپنیوں سے11 ارب 89 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرائے۔ پی ٹی اے کے فنڈز متعلقہ شعبوں میں ہی استعمال ہوں گے۔ کابینہ ڈویژن کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیا ہے پچھلے تین سال کے دوران پی ٹی اے کو 28 ارب روپے کی آمدن ہوئی جبکہ اخراجات 19 ارب روپے سے زائد رہے۔ چیئرمین سینٹ نے فیڈرل جنرل ہسپتال و فیڈرل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج اسلام آباد کے ملازمین کے کنٹریکٹس میں توسیع کا معاملہ متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا۔ اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن نے وقفہ سولات کے دوران تسلی بخش جواب نہ ملنے پرشدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کیا، اعتزازاحسن نے کہا وزراء ایوان میں آتے ہیں نہ سوالوں کے مکمل جواب دیئے جاتے ہیں، سرکاری افسروں کی گیلریاں بھی خالی رہتی ہیں، جو وزراء سوالوں کے جواب دینے کیلئے تیاری کر کے نہیں آتے وہ ایوان کی تضحیک کرتے ہیں۔ اپوزیشن نے ترجمان دفترخارجہ کے’’ ارکان پارلیمنٹ کو خارجہ پالیسی کی سمجھ نہیں‘‘ کے بیان پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا تسنیم اسلم نے ارکان پارلیمنٹ کی توہین کی ہے، مشاہد حسین نے کہا ترجمان دفتر خارجہ کی ارکان پارلیمنٹ سے متعلق زبان درست نہیں، رضا ربانی نے اپوزیشن ارکان کی طرف سے تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا دفتر خارجہ کی ترجمان کے ایک بیان سے ایوان کے ارکان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے بھارت کیساتھ تجارت کے حوالے سے تیار کی جانے والی منفی فہرست میں 30شعبوں کی1209 اشیاء شامل ہیں ، منفی اشیاء کی فہرست کے خاتمے کے لئے نجی شعبے اور مختلف سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جا رہی ہے جس کے بعد معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا، سینٹ سے کوئی معلومات مخفی نہیں رکھی جائے گی، ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت پانچ سال میں 25 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمات کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کسی صوبے کے افسران کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا، اس وقت پانچ افسران کو فیڈرل سیکرٹری کے طور پر اضافی چارج دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ڈیپوٹیشن پر کوئی بھی افسر کسی بھی محکمے میں جا سکتا ہے۔