جس ملک میں سرمایہ پر مخصوص لوگ سانپ بن کر بیٹھ جائیں‘ جاگیریں سازشوں ناانصافیوں اور عوام کے حقوق روندنے والے درندوں کا انعام بن جائیں اور آنکھوں میں نخوت و تکبر کی رمق طاقت کا نفسیاتی استعمال کرکے محنت کش کو کمی کمین جبکہ جابر کو وڈیرا‘ وڈا سائیں بنا دے‘ وہاں جز کل پر حاوی ہوتا چلا جاتا ہے۔ حرص کا صحرا خوابوں کے سمندر پی جاتا ہے لیکن اس کی پیاس ختم نہیں ہوتی۔ سمجھ لیجئے اپنی قسمت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ عام شخص کی خوشحال زندگی چند خاندانوں کی نہ ختم ہونے والی خواہشوں نے کرپشن کے ناسور کو دان کر دی ہے اور معاشرتی نظام تہہ در تہہ ناہمواری‘ ناانصافی و اخلاقی گراوٹ کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس کی شفافیت کا ذکر کیا جا سکے۔ تعلیم سے لیکر صحت تک‘ روشنی و توانائی سے لیکر سرکاری اداروں کی کارکردگی تک تعمیراتی عمل سے لیکر ٹریفک و قومی ابلاغی اداروں تک یہاں تک کہ سفارش و اقربا پروری‘ جبر و زیادتی‘ ناانصافی اور زور زبردستی تو قومی سماجی زندگی میں بنیادوں تک سرایت کر چکی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ اب ہمارے گلی محلوں میں بھی صلح جوئی‘ بردباری اور اخوت و محبت کی جگہ ناجائز اثر و رسوخ‘ خودنمائی اور ذاتی بڑائی نے لے لی ہے۔ جب ہم نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں تو منظر سے چند چہرے ہٹائے جانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ ہم تبدیلی کے نام پر پنڈال میں کہیں کا بابا اور کہیں کا باراتی پر راضی ہو جاتے ہیں۔جمہوریت کے نام پر بادشاہت کو ویژن 2025 کا نام دیکر گویا اپنی نسلوں کیلئے مزید دس سال کی حکمرانی کے خواب!! یعنی اگلے دس سال میں اور کچھ نہ سہی 3 کروڑ غلاموں کا اضافہ ہی سہی کیونکہ جس طرح ہمارے ہاں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ تین کروڑ کو ایک رف تخمینہ ہی کہا جا سکتا ہے جبکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور تعلیمی انحطاط سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنیوالے دنوں میں بھوک اور ننگ کی وجہ سے کسقدر لاقانونیت‘ چوری ڈکیتی‘ نفسانفسی اور تشدد کی فصل پھلے پھولے گی۔ سنا تو یہی ہے کہ اوپر والا جب رسی ڈھیلی کرتا ہے تو کرتا ہی چلا جاتا ہے لیکن جب عادی مجرموں کو گمان ہونے لگتا ہے کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئیگا تو اوپر والا کبھی کبھی رسی کھینچ ہی لیتا ہے۔ اب یہ تو اوپر والے کی مرضی ہے ناں کہ خود زمین پر اترے یا کسی نہ کسی کو نمائندہ مقرر کر دے۔ خود ہی دیکھ لیجئے بادشاہوں‘ مہاراجوں کے ایک نفع بخش منصوبے کی رسی جسٹس منصور علی شاہ نے کچھ یوں کھینچی ہے کہ گلبرگ سے موٹروے تک ایلیوئٹڈ ایکسپریس وے اور لبرٹی چوک تک سگنل فری منصوبہ جس کو ہنگامی بنیادوں پر شروع کرنے کا جنون راستے میں آنے والی عام لوگوں کی زمینوں کو زبردستی حاصل کرنے یا اونے پونے آنکھیں دکھا کر قبضہ کرتے ہوئے صحت و تعلیم کے شعبوں کو طاق میں رکھ کر پچاس ارب سے یہ ایکسپریس وے بنانے کا منصوبہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ساتھ عام لوگوں کی زمین کو ہتھیانے کے جنونی نوٹیفکیشن کو بھی منسوخ کیا گیا ہے۔ لگتا ہے ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ویسے ایسے جی داروں کو یقیناً یہ بھی معلوم ہو گا کہ یہاں کالعدم قرار دی جانے والی انتہا پسند پرتشدد جماعتیں بھی نام بدل کر ’’فعال‘‘ ہو چکی ہیں اور شرانگیز پتنگوں نے منہ میں لاؤڈ سپیکر لگا رکھے ہیں۔ وہ وقت بے وقت ذاتی سوچ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کی اپنی لچھے داریوں سے رجھانے میں لگ جاتے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے منصب کو بے توقیر نہیں دیکھ سکتے شاید اسی لئے انہوں نے فقط ایکسپریس وے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ حکومت سے جواب بھی طلب کیا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں شو آف ہینڈز کے طریقہ کار پر عمل کے بارے میں واضح طور پر بتائے کہ آیا حکومت ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی بھی ہے یا نہیں ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کی کھلی منڈی اور بولیوں کے اس بازار میں ملک کے اعلیٰ ترین آئین ساز ادارے کا تقدس بھی بیج دیا جائیگا یا پھر لکشمی والے اسکے تقدس کو خرید لیں گے۔حیرت انگیز بات ہے جس ملک میں بلدیاتی الیکشن کیلئے جمہوری حکومتوں سے سپریم کورٹ کو کہنا پڑے وہاں ماڈل ٹاؤن جیسے وضع دار رہائشی ساکھ کے حامل ٹاؤن میں کمیونٹی الیکشن ہو رہے ہیں جس کے ذریعے آئندہ تین سالوں کیلئے ایسی سوسائٹی کے خواہشمندوں نے یونٹی گروپ بنا لیا ہے جو علاقے میں گھس آنیوالے لینڈ مافیا گروہوں کو جڑ سے ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کسی بھی فلاحی سیاسی پلیٹ فارم پر برابری کی بنیادوں پر انصاف کی فراہم تو ایک روزمرہ خواہش ہے لیکن یونٹی گروپ کے ممبر ایگزیکٹو ’’کے بلاک‘‘ مجید یوسف نظام کو بدلنے کیلئے جب ماڈل ٹاؤن کے جمالیاتی حسن کی بحالی کے اقدامات پر بات کرتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس در آتا ہے۔ آج کے دور میں اصلاح و فلاح کو جمالیاتی خوبصورتیوں کا پیرہن دینے کی بات کوئی سچا کھرا درویش ہی کر سکتا ہے۔ آج یقیناً ماڈل ٹاؤن کے مکینوں کیلئے فیصلے کا دن ہے کیونکہ ناانصافیوں‘ کرپشن اور ذاتی مفادات کے بدمست بھینسے کے سامنے سرخ رومال لہرانا اگرچہ آسان نہیں لیکن انسانیت کی تاریخ بتاتی ہے آگ کا کھیل آخرکار پانی ہی تمام کرتا ہے۔