ڈاکٹر عافیہ اور گوشۂ عافیت؟

Mar 01, 2015

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

ڈاکٹر عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے  بجاکہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف چاہیں تو عافیہ صدیقی ایک دن میں رہا ہو سکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کیوں نہیں چاہتے ؟ اصل میں پاکستان کے کسی وزیراعظم نے یہ نہیں چاہا۔ یہ نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو بے گناہ اور مظلوم نہیں سمجھتے۔ وہ اصل میں امریکہ سے بلاوجہ اور غیرضروری طور پر ڈرتے ہیں۔ ورنہ امریکہ عافیہ صدیقی کے لئے سرکاری اور حکومتی سطح پر اس بات سے انکار نہیں کرے گا۔ صدر  اوباما تو بالکل نہیں کرے گا۔ صدر  اوباما نے ریمنڈ ڈیوس کے لئے ذاتی طور پر کوشش کی۔ پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا۔ جان کیری پاکستان آئے وہ اپنے ’’خاص‘‘ آدمیوں کے لئے کتنے فکرمند ہوتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا آدمی تھا۔ اپنی رہائی کے بعد ایبٹ آباد کے شرمناک واقعے میں اس نے ہی ساری پلاننگ کی تھی اور جو کچھ وہاں ہوا اس کے لئے ساری دنیا میں ہمارے لئے شرمندگی ہوئی۔ اس کے بعد ایبٹ آباد کارروائی کے لئے جاسوسی کرنے والے ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے امریکہ کیا کچھ نہیں کر رہا۔ امریکہ میں پاکستانی امداد کے لئے یہ شرط لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کیا جائے۔ اس نے پولیو کے بہانے سے اسامہ کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔ اسی لئے قبائلی علاقوں میں لوگ پولیو کے ٹیکے لگوانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ تو سوچنا چاہئے کہ پولیو ٹیموں پر حملے کون کر رہا ہے؟ تاکہ اس طرح بھی پاکستان کو بدنام کیا جائے اور ہماری حکومتیں اس کا الزام بھی نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف لگا رہی ہیں۔ یہ دہشت گرد کون ہیں۔ ان کے سرپرست کون ہیں۔ انہیں مالی اور فوجی سپورٹ کہاں سے آ رہی ہے؟ یہ ہمیں معلوم ہے مگر حکومت کو معلوم نہیں ہے؟ حکومت نے فرض کیا ہوا ہے کہ فوج کو بھی معلوم نہیں ہے؟ صدر زرداری نے پاک فوج کو اس واقعہ کے لئے ذمہ دار سمجھتے ہوئے امریکہ کے کسی اخبار میں مبارکباد کا مضمون لکھا تھا۔ وزیراعظم گیلانی نے امریکہ کو اس کام کے لئے خوشامدانہ بیانات دئیے تھے۔
ریمنڈ ڈیوس اور ڈاکٹر شکیل آفریدی سے بھی زیادہ قصوروار تو ڈاکٹر عافیہ نہیں ہے۔ ریمنڈ نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا تھا۔ عافیہ نے تو کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔ جتنی جیل وہ کاٹ چکی ہے، جتنی اذیت اور ذلت وہ برداشت کر چکی ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ امریکہ نے یہ تو کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو اپنے ملک میں ذرا سی غلطی پر جیل بھیج دیا ہے مگر  پاکستان میں اپنے آدمی کیلئے ذرا سی جیوئن سزا بھی قبول نہیں کی تھی۔ مگر ہماری حکومت اپنے لوگوں کی بیرون ملک  کوئی ذمہ داری نبھانے کی کوشش نہیں کرتی۔ اس کے لئے ایک رسمی بیان تک دینے کی جرات گوارا نہیں کرتی۔ پچھلی حکومت میں وزیرداخلہ رحمن ملک نے صرف باتیں بنائیں اور بڑھکیں لگائیں۔ نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ موجودہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے لئے میرا خیال ہے کہ وہ بہادر آدمی ہیں۔ بے باک ہیں۔ انہیں سچی کھری بات کرنے میں کبھی مشکل محسوس نہیں ہوئی۔  امریکہ میں  انہوں نے بہت زبردست باتیں کی ہیں۔ جو کوئی اور وزیر داخلہ جرات نہیں کر سکتا۔ شاہ محمود قریشی آج کل بڑے لیڈر بنے پھرتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ مگر وزیر خارجہ کے طور پر پاکستان سے زیادہ امریکہ کی ترجمانی کرتے تھے۔ چودھری نثار علی خان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کوئی کوشش کریں۔ وہ یہ کام کر دیں تو پاکستانی عوام بہت خوش ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کوشش میں چودھری صاحب کامیاب ہوں گے۔ یہ نہیں کہوں گا کہ چودھری نثار علی خان اگر چاہیں تو ایک دن میں عافیہ صدیقی رہا ہو سکتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں اور عافیہ ضرور رہا ہو گی۔  اور مجھے یقین ہے کہ عافیہ اپنے بھانجے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بیٹے کی شادی میں  شرکت کریں گی۔
اب تو یہ بھی آسانی ہے کہ امریکہ کا وہ معاندانہ رویہ افغان طالبان کے ساتھ نہیں رہا۔ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ افغان طالبان کو بھی افغان حکومت میں شامل کیا جائے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر بھی یہی الزام ہے کہ اس نے افغان طالبان کی سپورٹ کی۔ تو اب اس کے لئے بھی رعایت کی صورت بنائی جائے۔ جنرل مشرف تو یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے افغان طالبان کی حمایت کی اور ان کی مدد کی۔ جبکہ عافیہ نے عدالت میں یہ بات کر رکھی ہے کہ وہ ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہی ہے۔
آخر میں ایک  بہت خوبصورت اور منفرد شاعرہ ناز فاطمہ کے کچھ اشعار اس کے شعری مجموعہ ’’ہمیشہ‘‘ سے پیش کرتا ہوں۔ وہ رومانیت اور  روحانیت کے امتزاج سے اپنی باتوں کا مزاج بناتی ہے۔ اس نے بڑے لوگوں کے لئے ایک جملہ کہا جو بڑے عجیب و غریب معانی دل میں اتارتا ہے۔ بے حسی کی نیگٹو اور پازیٹو کیفیتوں کو ایک منفرد رنگ دیا ہے جو بے رنگی اور رنگا رنگی کو رلا ملا رہا ہے۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کی بے حسی کا شکار ہیں۔ ایسی ہی صورتحال بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں پنہاں ہوتی ہے اور عیاں بھی ہوتی ہے۔ ناز فاطمہ کے اشعار پھر کبھی سنائوں گا۔ ایک تخلیقی سرشاری میں بولنے والی صوفیہ بیدار کے دو تین اشعار سنئے اور اس کسک کو محسوس کیجئے جو میرے لفظوں کی آنکھوں میں آنسوئوں کی طرح چھپے ہوئے ہیں۔
بیٹی ہوں سوہنے دیس کی مٹی کی باس ہوں
راوی کبھی چناب ہوں ستلج ہوں بیاس ہوں
اس طرح اپنے ہاتھ سے جانے نہ دے مجھے
امید ہوں میں آخری میں تیری آس ہوں
ملفوف مجھ میں سانحے کتنے ہیں صوفیہ
چادر ہوں شام ہجر کی غم کا لباس ہوں

مزیدخبریں