اشفاق احمداپنے ڈراموں کے ایک مجموعے "ٹالی دے تھلے" میں چند کہانیاں پیش کرتے ہیں جن میں لوگ گائوں کے پاس ایک ٹاہلی کے نیچے احاطے میں خوشی، غمی اور مسائل کے حل کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں- انہی میں ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی بھی ہے جو اپنی بیوی سے رُوٹھ کر ٹاہلی کے نیچے جاکر بیٹھ جاتا ہے- اُس کی بیوی اُسے منانے کیلئے پیچھے آتی ہے- بوڑھا شخص آنکھوں میں آنسولیئے گھر واپس جانے سے انکار کر دیتا ہے اور گِلہ کرتا ہے کہ جب جوانی میں وہ کمائی کرکے گھر آتا تھا تو وہ اُسے سب کام چھوڑ کر دوسروں پر فوقیت دیتے ہوئے کھانا دیتی تھی لیکن اب وہ اُسے نظر انداز کرتے اسکے کمائو بیٹے کو اُس پر ترجیح دیتے ہوئے کھانا دیتی ہے جس سے اُسے اپنی کمتری اور ناکارہ ہونے کا احساس ہوتا ہے کہ اب اِس گھر میں اُسکی ضرورت نہیں رہی لہذا وہ گھر چھوڑ کر ٹاہلی کے نیچے آکر بیٹھ جاتا ہے- بیوی مِنت سماجت کرکے اُسے منا کر گھر لے جاتی ہے- بعدازاں اُس ٹاہلی کو بھی گھن یعنی دیمک لگ جاتا ہے اور متعلقہ محکمے والے ٹاہلی کاٹنے آجاتے ہیں-
حکومتِ پنجاب نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے مطابق عورت پر تشدد کرنیوالے کسی بھی گھر کے مرد افراد، خاوند، بھائی، سسر، تایا، چچا وغیرہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے گی جس کی کم از کم سزا اُسے دو دن کیلئے گھر سے نکالا جانا شامل ہے- سورہ نساء میں ارشاد ہوا کہ ہم نے مردوزن کو ایک روح سے پیدا کیا ہے- تفسیر کے مطابق پہلی خاتون حوا کو پہلے مرد آدم کی روح سے پیدا کیا تاہم باقی ماندہ مردوزن حضرت آدم ؑ کی یا حضرت آدم ؑ اور اماں حوا کی مشترکہ روح سے پیدا کیا (سورہ نساء آیت نمبر۲ )- صحیح بخاری میں ایک حدیث مبارکہ کے مطابق عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور اُسکی حد اونچائی سے تشبیہ دی گئی جو اپنی پیچیدہ ساخت کی وجہ سے ٹوٹ توسکتی ہے لیکن جُھک نہیں سکتی- لہٰذا نبیؐ خدا نے مرد کو عورت کے ساتھ حکمت اور برداشت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا- عورت کی جسمانی کمزوری اس کی فطری نازکیت کا خزینہ جبکہ اُسکے کمزور مزاج ہونے کا باعث ہے- عورت اکثر غصہ، ضد، مکر، کا محض اظہار کرتی ہے لیکن لازمی نہیں کہ وہ اندر سے واقعتاً ایسی ہی ہو لہٰذا آقائے نامدار کے فرمان میں ایک حکمت نظر آتی ہے کہ عورت کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جائے اور اس کی فطری کیفیت کو حقیقی نہیں بلکہ سطحی تصور کیا جائے تاکہ بگاڑ پیدا نہ ہو- جبکہ ہمارے معاشرے میں نبیؐ خدا کے حکم سے غفلت ہو جاتی ہے اور مرد عورت کی فطری کیفیات کا غلط تخمینہ لگاتے عدم برداشت کا شکار ہو جاتا ہے اور ڈانٹ، ڈپٹ، گالم گلوچ یا تشدد اختیار کرتے اُسے جوڑنے کی بجائے توڑنے کا سبب بن جاتا ہے-بلاشبہ ایک طرف باپ، بیٹا، بیٹی کو من پسند شادی اورکسی بے راہ روی سے روکنے، خاوند بیوی کو اسراف سے باز رکھنے ، بزرگوں کی عزت کرنے ، نماز اور اخلاقی و سماجی اقدار کا پابند رہنے کی تلقین کرتا ہے تو دوسری طرف اُسکے کئی جائز حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ، سماجی، معاشی اور معاشرتی حقوق کی عدم فراہمی پر آواز بلند کرنے پر تشدد کا نشانہ بنا ڈالتا ہے- جہیز نہ لانے پر بیوی کو مارنا، بیٹے کا ماںپر تشدد ، نشئی شوہر کا کام کاج کرکے خاوند کو پالنے اور پیسے نہ دینے پر بیوی پر تشدد ، سسرالیوں کا بیوی کے خلاف بیٹے کے کان بھرنے پر بیوی سے ناروا سلوک، جبری شادیاں اور وراثتی جائیداد سے محروم رکھنا چند بھیانک مثالیں ہیں جس کی روک تھام کیلئے کوئی نہ کوئی قانون موجود ہے -
چشمِ فلک نے کئی سماجی تنظیموں کے ہاتھوں بیوی کے خاوند سے صلح کی طرف مائل ہونے کے باوجود عدالتوں اور میڈیا میں توجہ حاصل کرنے کیلئے آشیانے آباد کرنے کی بجائے برباد کرتے بھی دیکھا ہے- فاضل ساتھی کالم نگار سعید آسی کہتے ہیں کہ یہ سزائیں تو اس معاشرے میں بھی نہیں جس نے عورت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے - میرے ایک کزن کی رن مریدی برطانیہ سکونت اختیار کرتے کیا رنگ لائی کہ پاکستان میں رن مریدی کے طعنے سہنے والے اس کزن پر ایسا قانونی غلاف عنایت ہوا کہ وہ بیوی کی سوشل میڈیا پر خوش کن نمائش پر سرزنش کی بجائے لائق کرنے پر مجبور ہے -اشفاق احمد صاحب سے جسارت کے ساتھ کہ ہماری تہذیب میں ٹاہلی سے کہیں زیادہ بوڑھ کے درخت کو ایک خصوصی سماجی اہمیت حاصل ہے محاورہ ہے کہ لڑکیاں ٹاہلیاں جبکہ لڑکے بوڑھ ہوتے ہیں جنہیں پالنا زیادہ کٹھن ہے لیکن بوڑھ کہیں زیادہ مضبوط، دیرپا اور معاشرے کیلئے مفید ہوتے ہیں جو ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت اور فروغ کیلئے نہایت کارگر رہے ہیں- 70% دیہاتی آبادی میں بوڑھ کے نیچے میدان ایک کمیونٹی سینٹر کے طور پر استعمال ہوتا ہے- خاکسار نے اپنے بزرگوں کی گود میں بیٹھے انہی گائوں کے افراد کے درمیان لین دین، وراثتی تنازعات، لڑائی جھگڑے، قتل، مرد عورت کے بھاگ کر شادی کر لینے حتیٰ کہ میاں بیوی کے درمیان گھریلو ناچاقیوں کو پنچایت کے ذریعے حل کرتے دیکھا ہے اور پھر اپنی پولیس تعیناتیوں کے دوران تھانہ کچہریوں میں موجود بوڑھ کے درختوںکے سائے تلے صلح صفائی کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے جو کارگر ثابت ہوئی ہے- اسی بوڑھ کے درخت کے نیچے تمام گائوں کے افراد اکٹھے ہوتے کسی درپیش معاشرتی مسئلہ پر مشترکہ فیصلہ کر لیتے جس پر ہر خاص و عام عمل درآمد کرتا اور امن قائم ہو جاتا اور پولیس کی مداخلت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بلکہ پولیس پر بوجھ کم ہو جاتا اور یوں گھر کے مسائل پردہ داری سے گھر میں ہی حل ہو جاتے- حالیہ قانون سازی درحقیقت اُس محکمے کی طرح دکھائی دیتی ہے جو اشفاق احمد کی پیش کردہ ٹاہلی کو لگے گھن کاتدارک کرنے کی بجائے کلہاڑیوں سے کاٹنے آجاتا ہے- خاکسار سمجھتا ہے کہ ٹاہلی تو کٹ چکی لیکن اب اخلاقی اقدار اور روایات کے محافظ بوڑھ کو اپنی ہی قانونی آری سے کاٹنے سے گریز کیا جائے اور NGOsکے گھربسانے کیلئے گھریلو چپقلش کو ہوا دینے کی بجائے اسے معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کے صحن میں بڑے بزرگوں کی صورت میں تناور اور چھائوں سے بھرپور بوڑھ کے درخت کی طرح مرد وزن دونوںکے حقوق کی حفاظت کیلئے کسی ناگزیر لیکن متوازن قانون سازی کے ذریعے حل کروانے میں مدد اور فروغ دیا جائے تاکہ بوڑھ روایت قائم رہے-