امریکہ میں صدارتی انتخابات کیلئے امیدواروں میں دوڑ شروع ہوچکی ہے اور ہر کھلاڑی وائٹ ہائوس میں داخلے کیلئے دائو پیچ استعمال کررہا ہے۔ اس مرتبہ نامزدگی کیلئے سات امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ پانچ کا تعلق ریپبلکن پارٹی اور دو کا تعلق ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے۔ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے ٹیڈ کروز، مارکورو بیو، جیب بش، جان کیچ اور ڈونلڈ ٹرمپ جبکہ ہلیری کلنٹن اور برنی سینڈرز کے درمیان ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کیلئے مقابلہ ہورہا ہے۔ جولائی میں حتمی صدارتی امیدواروں کے نام سامنے آجائینگے۔ امریکہ کا صدر چونکہ دنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے اور دنیا میں ہونے والے ہر بڑے فیصلے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے اس لئے امریکہ میں صدر کے انتخاب کو دنیا کا سب سے بڑا انتخابی معرکہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم اگر صدارتی امیدواروں کا موازنہ کیا جائے تو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کا رویہ سنجیدہ اور معقول دکھائی دیتا ہے۔ عالمی اقتصادی بحران، بیروزگاری، مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں پسپائی، اقتصادی میدان میں چین کا بڑھتا ہوا چیلنج، امریکہ میں سفید فام عیسائیوں کی عددی برتری میں کمی، دہشتگردوں کا خوف اور اس جیسے دیگر عوامل امریکی عوام میں مایوسی کا سبب بن رہے ہیں۔ امریکی انتخابی سیاست میں قوم پرست یا جذباتی امیدوار کوئی نئی بات نہیں ایسے امیدوار ہر انتخابات میں زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم میں داخل ہوتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ امریکی صدر کی انتخابی دوڑ میں ہلیری کلنٹن مضبوط امیدوار کے طور پر نظر آتی ہیں کیونکہ انکے پاس مضبوط سیاسی پس منظر اور انتظامی تجربہ ہے جبکہ انکی انتخابی ٹیم بھی بہتر ہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیڈ کروز کو کچھ مقبولیت حاصل ہورہی ہے لیکن انکے پاس نہ کوئی مضبوط پالیسی ہے نہ ہی کوئی متبادل اقتصادی نظام اور نہ بین الانسانی یا بین المذاہب احترام کی سوچ ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام مسلمانوں کیخلاف اپنی تقاریر میں زہر اگلتے پھر رہے ہیں۔ غیرقانونی تارکین وطن کو انکے بچوں سمیت ملک بدر کرنا، مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی، چینی درآمدات پر 45فیصد ٹیکس، مشتبہ دہشتگردوں کے بے گناہ رشتہ داروں کو ہلاک کرنا انکے ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔ میکسیکو کے تارکین وطن خاص طور پر ان کا ہدف ہیں اور انکے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے کے علاوہ وہ ان کی امریکہ میں آمد روکنے کیلئے دیوار تعمیر کرنے کی تجوبز بھی پیش کرچکے ہیں۔ ان کی اس تجویز پر عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ فرانسس نے ٹرمپ کے عیسائی ہونے پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔ پوپ فرانسس کے بقول ایک ایسا شخص جو انسانوں کے درمیان دیوار تعمیر کرنے کا سوچتااور پل تعمیر کرنے کی بات نہیں کرتا وہ عیسائی نہیں ہوسکتا۔ عسائیت میں پوپ سے بڑا فتویٰ کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔ ایک طرح سے ان کے نزدیک ایسی محدود اور منفی سوچ رکھنے والا شخص دائرہ عسائیت سے خارج ہے۔ بقول شاعر
انسان کو انسان سے ہی اگر پیار نہیں ہے
وہ انسان ہی کہلانے کا پھر حقدار نہیں ہے
ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شریک ہلیری کلنٹن نے بھی ٹرمپ کے نفرت انگیز بیانات کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اسے امریکہ دشمن قرار دیا ہے۔ ایک انتخابی جلسے کے دوران تو انہوں نے کتے کی آواز نکال کر ری پبلیکنز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ امریکی صدر اوباما نے بھی ان بیانات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ ری پبلیکنز کی بیان بازی سے دنیا بھر میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف بیانات اور جذبات بھڑکانے سے ووٹ نہیں ملیں گے۔ کیونکہ امریکی صدر ہونا سنجیدہ کام ہے، رائلٹی شو کی میزبانی نہیں۔ امریکہ میں انسانی حقوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے وہاں انسان تو ایک طرف جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر ایک کو انصاف کی فراہمی حاصل ہے، امیر ہو یا غریب سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں، ٹیکسی ڈرائیور ہو یا مزدور سب کو بروقت اور بہتر مزدوری ملتی ہے۔
شریعت کے پیمان جو ہم نے توڑے
وہ لیجا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
بہرحال ایک ایسے معاشرے میں رہنے والے افراد سے یقینی طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں بھی ایسے امیدواروں کو مسترد کردیں گے جو منفی، مذہبی منافرت اور تعصب کی سیاست کررہے ہیں۔ انتخابات میں دل آویز نعرے اور بیانات ووٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے اور ووٹ کے حصول کیلئے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ بیانات کی سحر انگیزی کو مؤثر بنانے کیلئے عوام کے دلی جذبات اور نفسیات کو کارفرما رکھا جاتا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کیخلاف تعصب پر مبنی بیانات امریکہ جیسی عالمی طاقت اور انسانی حقوق کے علمبردار ملک کے صدارتی امیدوار کو زیب نہیں دیتے۔ ان کا یہ بیان کہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے، اگر ایسا ہو جائے تو کیا پھر مسلمان ممالک میں عیسائی عوام کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوں گے؟ مگر ٹرمپ صاحب کو ہرگز اس کا احساس نہیں ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
لوگوں کے درمیان نفرتیں کم کرکے پل کا کام کرنا تمام مذاہب کی سوچ اور بنیاد ہے اور امامِ کعبہ کے خطبہ حج اور پوپ کے خیالات کا غور سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ کوئی مذہب کسی صورت دوسرے انسانوں کے حقوق کو پامال کرنے یا بے گناہوں کو مار دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ بلا امتیاز انسانیت کی خدمت اور احترام ہی ہر مذہب میں سب سے بڑا اور افضل عمل ہے۔ امامِ خانہ کعبہ کے خطبہ حج کے علاوہ بھی بارہا اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ داعش ، القاعدہ اور دیگر ایسے لوگ جو کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم بے گناہ کو قتل کرتے ہیں ان کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ لوگ اسلام اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ پھر اسلام انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے۔ خدا اور اسکے رسول ؐکے بعد انسانیت سے بڑا کوئی رشتہ نہیں، اسلام مساوات، اخوت، بھائی چارے، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور جو انسانیت کا دشمن ہے وہ نہ مسلمان ہے نہ عیسائی نہ اور کوئی مذہبی کیونکہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ۔ امریکی عوام کو یقینا اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے وقت سوچنا پڑے گا۔ کیونکہ کوئی ملک، قوم ، شخص یا رہنما اپنی سوچ کی وسعت اور اسکے تعمیری ہونے سے ہی بڑا بنتا ہے۔ منفی اور محدود فکر کا کا کوئی بھی آدمی انسانی تاریخ میں آج تک کوئی اہم مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ دانش
قد میں تو انسان سے سایہ بھی بڑا ہوتا ہے
امریکی الیکشن …امامِ کعبہ اور پوپ فرانسس
Mar 01, 2016