ذرا علامہ اقبال کو پڑھئے ’’کوئی آدمی عربی زبان کے چارم‘‘ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں خاصی عربی سیکھ لی تھی۔ مجھے اس زبان کی عظمت کا صحیح اندازہ ہے۔ مکاتب اقبال صفحہ 203 مرتبہ شیخ عطاء اللہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط صفحہ 110 تا 191 بہت سے علمی، فکری مقامات کو ظاہر کرتا ہے۔ جو عربی زبان و ادب اور کتب احادیث سے گہرے تعلق کو اقبال سے وابستہ بتاتے ہیں۔ علماء کو مکاتب اقبال پڑھنے چاہئیں۔ وہ تہجد گزار مفکر و مجتہد تھے یہ نکتہ بھی مکاتب اقبال میں صفحہ 476 اور صفحہ 464 پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ جدید تعلیم اور قدیم تعلیم کے حسن امتزاج پر اقبال کا مؤقف آپ صاحب زادہ آفتاب احمد خاں کے نام خطوط میں صفحہ 522 تا صفحہ 530 پڑھ سکتے ہیں۔ کیا کوئی جانتا ہے کہ اقبال ابن تیمیہ، ابن حزم و دیگر کو عربی زبان میں پڑھتے تھے؟ انکے روحانی مقام کو عطیہ فیض نے جو بیان کیا ہے وہ مکاتب میں 422 پر آپ پڑھ سکتے ہیں۔ رسم و رواج کے بارے میں اقبال کا مؤقف ہے شادی ایک ذاتی معاہدہ ہے مذہبی نہیں۔ جہاں تک تعداد ازدواج کا تعلق ہے ہندو شاستروں میں قرآن کے مقابلے میں بہت آزادی ہے۔ بیویوں کی تعداد پر کوئی روک ٹوک نہیں قرآن نے تو اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی ہیں۔ موج کوثر از شیخ محمد اکرام صفحہ 224 اس جگہ اقبال ’’حرام جہاد‘‘ اور ’’فرض جہاد‘‘ کا پیغام واضح کرتے ہیں۔ اقبال نے سب سے زیادہ زور توحید پر دیا ہے۔ حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ سرسید جو خود کو نیم وہابی کہہ کر موحد ثابت کرتے تھے اقبال کے ساتھ مسئلہ توحید پر یکساں کھڑے ہیں۔ شاہ اسمٰعیل شہید کے توحید افکار کے ساتھ اقبال کھڑے نظر آتے ہیں (موج کوثر صفحہ 212) جبکہ سرسید احمد خاں سعید احمد بریلوی شہید اور سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حلقہ اس کے طالب علم تھے۔ یہ دونوں بزرگ عربی کے عاشق اور قرآن پاک کے محب صادق تھے۔ سرسید کے نیم وبابی کا معاملہ موج کوثر صفحہ 48 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ آج ملک میں بحث جاری ہے کہ مدارس اصلاحات کیوں ضروری ہیں۔ مدارس کے نصاب تعلیم میں اصلاحات کر کے اسے عصر حاضر کا نمائندہ نظام درس بنایا جائے۔ ہمارے علماء کیسے تھے؟ شاہ ولی اللہ تمام علوم میں ماہر حتیٰ کہ علوم افلاک، ہیئت، ریاض، نجوم میں بھی۔ انہوں نے نجوم کی روشنی میں اپنا اور محمود غزنوی کا زائچہ بھی بنایا۔ محمود غزنوی کے متحرک و فعال جہاد میں وہ آنحضرتؐ کی شخصی پھرچھائیاں دیکھتے تھے۔ اقبال اپنے عہد میں صرف جمال الدین افغانی کو مہدی کا مقام دیتے ہیں یعنی مجدد، مکاتب صفحہ 533 ۔ یہ جمال الدین افغانی جس کو اقبال مجدد کے مقام پر فائز کرتے ہیں وہ تعلیمی طور پر افغانستان کے مدارس میں تعلیم پا کر مشہد، اصفہان اور ہمدان میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انکی تعلیم میں معتداول دینی علوم، تاریخ، حکمت، فلسفہ ریاض، نجوم وغیرہ شامل ہیں ’’اقبال ، افغان، افغانستان از محمد اکرام چغتائی صفحہ 340۔ فیض احمد فیض اقبال ہی کی طرح شمس العلماء کے شاگرد، میر ابراہیم سیالکوٹی سے سبق لینے والے اقبال ہی کی طرح میٹرک کی تعلیم میں کافی زیادہ عربی جان چکے تھے۔ دونوں نے عربی زبان جان چکے تھے۔ دونوں عربی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھا اور ایم اے عربی کیا۔ کیا اقبال اور فیض احمد فیض مسجد میں بیٹھا ہُوا مولوی ہیں؟ عربی زبان کو اسی اسلوب میں پڑھنا چاہئے جو اہل عرب کا اسلوب ہے۔ دینی مدارس میں دینی علوم اور ادب عربی تو بہت (اردو میں) پڑھایا جاتا ہے مگر افسوس خود عربی زبان میں مہارت کا قحط ہے۔ سید سلیمان ندوی کی طرح مولانا اسلم جیراج پوری پروفیسر ملیہ کالج سے اقبال رہنمائی لیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے اسلم جیراج پوری کو منکر حدیث کہا جاتا ہے۔ مولانا اسلم جیراج پوری سید نذیر حسین محدث کے شاگرد مولانا سلامت اللہ جے راجپوری کے لخت جگر ہیں اور یہ خاندان اہل حدیث تھا۔ اسلم جیراج پوری کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ دینی مدارس کی تعلیم کو عہد حاضر کا ترجمان اور نمائندہ بنائو جیسا کہ ماضی بعید میں درس نظامی اپنے عہد کا نمائندہ اور ترجمانی تھا۔ مولانا فضل الرحمان آج دینی مدارس کے تحفظ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمان کا مطالبہ ہے کہ صرف دینی مدارس کی اصلاحات کا مطالبہ کیوں؟ تمام تعلیمی نظام کی اصلاح کی جائے۔ ہم مفتی منیب کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ عربی زبان سرکاری مدارس میں بہت ہی واجبی سی پڑھائی جاتی ہے۔ مگر دینی مدارس میں اہل عرب کے اسلوب عربی زبان کا فہم کیوں عنقا ہے؟ اس پر شیخ العربیۃ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے بہت عمدہ500 صفحات پر مشتمل کتاب ’’درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ مدارس میں اہل عرب کی طرح عربی زبان کی تعلیم کے لئے نصاب کتب شیخ العربیۃ نے خود تحریرکی ہیں۔ ان کی ایک کتاب شاہ ولی اللہ سے متعلق عربی زبان میں ہے۔ انہوں نے برصغیر میں پہلی مرتبہ ازالۃ الخفاء جو شاہ ولی اللہ کی اس طرح کی نابغہ تحریر ہے جیسی حجۃ اللہ البالغہ۔ جس میں شاہ ولی اللہ نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو پیش کیا ہے اور حکمرانی کے اسلامی آفاقی اصول لکھے ہیں۔ شیخ العربیۃ محمد بشیر سیالکوٹی نے بہت محنت سے فارسی میں لکھی ہوئی ازالتہ الخفاء کا عربی میں ترجمہ کردیا ہے۔ یہ سب کچھ دینی مدارس اور سرکاری سکولوں کے لئے لکھی گئی۔ مولانا محمد بشیر آجکل بیمار ہیں انکی صحت یابی کی دعا، کی استدعا ہے۔ وہ اکیلئے پورے پاکستان میں عربی زبان کے فروغ کو زندگی کا مشن بنائے ہوئے ہیں۔ کاش ہماری حکومت لازمی تدریسی عربی کا قانون بنا دے اور وزیر مذہبی امور کے اعلانات کو سچا ثابت کر دے۔ حیرت ہے شیخ العربیۃ محمد بشیر اسی سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جہاں اقبال و فیض و شمس العلما، اور میر ابراہیم سیالکوٹی جیسے پیدا ہوئے تھے۔